کتاب: بیعت سقیفہ بنی ساعدہ نئے مؤرخین کی تحریروں میں - صفحہ 42
میں جمع ہوئے تھے۔ او رپھر انہوں نے اس کام کے لیے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا تھا۔جب یہ خبر حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو وہ بھی سقیفہ کی طرف چل پڑے۔ راستے میں انہیں انصار کے دو فرد حضرت معن بن عدی اور عویم بن ساعدہ[1] ملے۔ انہوں نے پوچھا : کہاں کا ارادہ ہے ؟
جب انہیں بتایا گیا کہ وہ سقیفہ بنی ساعدہ جارہے ہیں ‘ تو انہوں نے کہا:
اے مہاجرین کی جماعت ! تم واپس چلے جاؤ ؛ تم پر کوئی حرج والی بات نہیں ہے‘ اور کوئی ایسی چیز نہیں ہوگی جسے تم ناپسند کرتے ہوں گے۔[2]
پھر اس کے بعد جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے معاملہ کی صورت حال واضح کی کہ یہ مہاجرین کی فضیلت اوران کا حق ہے۔ اور یہ کہ قریش اس کے زیادہ حق دار ہیں ۔ اور پھر اس پر خود حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے گواہی بھی دلائی ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ اے سعد ! آپ جانتے ہیں کہ آپ بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا :
’’قریش اس امر کے والی ہیں ۔لوگوں کے نیک ان کے نیکو کاروں کے تابع اور بداوران کے بدکاروں کا تابع۔‘‘ [3]
[1] معن بن عدی بن الجد بن العجلان بلوی؛ انصار کے حلیف تھے۔غزوہ احد میں شرکت کی ‘الاصابہ ۶/۱۵۱؛ ت ۸۱۷۶۔ اور عویم بن ساعدۃ بن عائش الاوسی الانصاری ‘ آپ نے بدر و احد میں شرکت کی تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مابین بھائی چارہ قائم کیا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں انتقال ہوا۔
[2] الإمام أحمد مسند‘۱/۵۵۔ ابن ابی شیبۃ المصنف ۱۴/۵۶۵۔
[3] المسند ۱/۱۶۴۔ تحقیق أحمد شاکر۔صحیح لغیرہ۔