کتاب: بیعت سقیفہ بنی ساعدہ نئے مؤرخین کی تحریروں میں - صفحہ 34
معاملہ کے لیے متعین بھی کئے جاچکے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ : ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ اور اس کا رسول مؤمنین کی جماعت انتخاب اور بیعت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں ۔[1] ان کی رائے میں کوئی شک نہیں ۔اس لیے کہ اسلام کی قیادت ان لوگوں کے ساتھ بندھی ہوتی ہے جنہیں نصوص کی روشنی میں متعین کیا جاتا ہے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھی تھے ‘ اور آپ کے داماد بھی؛ آپ کی بیٹی فاطمہ کے شوہرتھے ؛ جنہیں آپ نے اپنے بعد چھوڑا تھا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جائز اور قانونی خلیفہ تھے؛ اس کی تائید نصوص اور تعیین سے ہوتی ہے۔ اس جماعت نے ولایت الٰہی کا نظریہ پکڑ لیاتھا۔ان کے ہاں حق خلافت ایک مقدس چیز تھی۔جب کہ دوسرے لوگوں نے خلافت کو لوگوں کے انتخاب اور بیعت سے مربوط رکھا تھا۔‘‘[2]
یہی تجزیے ان لوگوں سے بعض عرب مؤرخین نے بھی لیے ہیں ۔ مثلاً عبد العزیز الدوری کہتا ہے:
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین قبائلی تقسیم کی بنیاد پر گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ ان میں سے ہر ایک گروہ کا ایک لیڈر
[1] اس سے مراد شیعہ ہیں جن کا نظریہ یہ تھا کہ خلافت صرف اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے نص کی بنیاد پر منعقد ہوسکتی ہے۔ جیساکہ رافضیوں کا عقیدہ ہے۔ دیکھیں : علی السالوس کی کتاب: ’’ الإمامۃ عند الجعفریۃ ‘‘ مکتبۃ ابن تیمیۃ ؛ الکویت۔
[2] فیلیب حٹی ؛ تاریخ العرب المطول ۱/۹۰۔