کتاب: بیعت سقیفہ بنی ساعدہ نئے مؤرخین کی تحریروں میں - صفحہ 33
ہی نہیں ؛ نہ ہی تاریخ میں اورنہ ہی اسنادی اعتبار سے۔ہاں اگر کہیں پر کوئی ایسی روایت ہوتنقید وجرح کے سامنے جس کا وجود ہی برقرار نہ رہ سکتا ہو تو یہ ایک علیحدہ بات ہے۔یہ وہی روایات ہوسکتی ہیں جنہیں اہل بدعت میں سے خصوصاً روافض نے مشہور کر رکھا ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے:
’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو کئی مخالف گروہ ظاہر ہوئے۔ یہ وہی چیز ہے جو کسی بھی معاشرہ میں اچانک کسی بڑے اور خطرناک معاملہ کے پیش آنے کی وجہ سے ظاہر ہوسکتی ہے۔ ان میں سے ایک گروہ مہاجرین کا تھا۔ ان میں سے اکثر قریش تھے جن کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلہ سے تھا۔ انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ خلافت قریش کا حق ہے۔اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہی پہلے لوگ ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعتراف کیا۔اس مسئلہ پر ان سے اختلاف کرنے والے انصار کی جماعت تھی۔ یہ لوگ اہل یثرب تھے۔ ان کا دعویٰ یہ تھا کہ : ضروری ہے کہ خلافت اہل مدینہ میں ہو۔ اس لیے کہ اگر یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاں جگہ نہ دیتے اور اس کے شروع کے ایام سے ہی اسلام اور مسلمانوں کی حمایت نہ کرتے تو رسول اور رسالت دونوں ضائع ہوجاتے۔پھر اس کے بعد یہ حادثہ پیش آیا کہ یہ دونوں جماعتیں صحابہ کے نام پر ایک ہوگئیں ۔ وہیں پر ایک تیسرا گروہ بھی تھا جن کے حق میں نصوص موجود تھیں ‘ اوروہ اس