کتاب: بیعت سقیفہ بنی ساعدہ نئے مؤرخین کی تحریروں میں - صفحہ 23
وہ دین جس نے اپنے ماننے والوں کو قضائے حاجت کا طریقہ بھی سکھایا ہے[1]تو پھر ان کے ہاں ایک اہم ترین جانب یعنی حاکم کے تعین کے متعلق احکام ؛ اوروہ کیسے حکم چلائے گا؟اتنے اہم بیان کا نہ ہونا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟۔ جب ہم علماء اسلام کی فقہی میراث کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ احکام سلطانیہ اور شرعی سیاست [2]سے متعلق کئی کتابیں ہیں جنہوں نے اس پہلو کے ایک بہت بڑے حصہ کو بیان کیا ہے‘ اوریہ کتابیں خصوصاً اسی جانب [مسئلہ ]پر لکھی گئی ہیں ۔ ان میں خلیفہ کے انتخاب کی شرائط ذکر کی گئی ہیں ۔اور پھر یہ کہ خلیفہ کیسے بنایا جائے گا؟ اس کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی؟۔اس کے حقوق کیا ہوں گے؟ رعایا کے حقوق کیاہوں گے؟ خلیفہ کو کب معزول کیا جائے گا؟ اوراگر کوئی باغی اس کے خلاف بغاوت کرے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ مزیدبرآں ان اقوال اور بد گمانیوں پر اہل مغرب کے اقوال سے بھی رد کیا جا سکتا ہے ۔اس لیے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کے دلوں میں اہل مغرب کے
[1] صحیح مسلم ‘ کتاب الطہارۃ باب الاستطابۃ۱/۲۲۳۔کسی مشرک نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: ’’تمہارے نبی نے تو تمہیں قضائے حاجت کا طریقہ بھی سکھادیا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا: ’’ ہاں ! ہمیں پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے سے یا تین پتھروں سے کم میں استنجاء کرنے ‘ یا گوبر یاہڈی سے استنجاء کرنے سے منع فرمایا ہے ۔‘‘ [2] بطور مثال کے دیکھیں : الاحکام السلطانیۃ از ماوردی الشافعي۔ اور ابو یعلی حنبلی؛ اور غیاثی؛ اور امام الحرمین الجوینی۔ اور السیاسۃ الشرعیۃ لاصلاح الراعي و الرعیۃ۔ اوردیگرکتب۔