کتاب: بیعت سقیفہ بنی ساعدہ نئے مؤرخین کی تحریروں میں - صفحہ 22
﴿وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓئِرٍیَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ ثُمَّ اِلٰی رَبِّھِمْ یُحْشَرُوْنَ﴾ [الانعام: ۳۸]
’’اور نہیں ہے کوئی چلنے والا زمین میں اور نہ کوئی پرندہ کہ اڑتا ہے اپنے بازؤوں سے؛ مگر ہر ایک امت ہے تمہاری طرح؛ ہم نے لکھنے میں کوئی چیز نہیں چھوڑی؛ پھر سب اپنے رب کے سامنے جمع ہوں گے ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے :
﴿ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ [المائدۃ:۳]
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اپنی نعمت پوری کر دی اور اسلام کو ایک دین کی حیثیت سے تمہارے لیے پسند کر لیا ۔‘‘
یہ ایسا اتمام دین [دین کا مکمل ہونا] ہے جس میں کسی بھی جانب سے اور کسی بھی کیفیت سے کوئی کمی نہیں ۔نہ ہی حاکم کے تعین کے حوالے سے اور نہ ہی اس کے لیے مختص احکام کے حوالے سے ۔
یہ دین زندگی کے تمام امور میں کامل کیونکر نہ ہوتا؛ جب کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آسمان میں کوئی پرندہ بھی پلٹتا نہیں تھا مگر آپ نے اس کے علم کے متعلق بھی ہمیں آگاہ کیا ۔‘‘ [مسند أحمد]