کتاب: بیعت سقیفہ بنی ساعدہ نئے مؤرخین کی تحریروں میں - صفحہ 20
محمد جمال الدین سرور کا خیال یہ ہے کہ شاید وہ اسلام میں پائی جانے والی نظام حکومت کے متعلق مشکلات کا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے ‘ وہ کہتا ہے :
’’ آپ نے یہ معاملہ ایسے ہی چھوڑ دیا تھا تاکہ لوگ اپنے لیے ایسا نظام حکومت اختیار کرلیں جو ان کی طبیعتوں کے ساتھ مناسبت رکھتا ہو ‘ اور زندگی کے تطور کے ساتھ ان کے ساتھ نبھاسکے۔‘‘ [1]
اور اگر آپ اس کے بعد اس سے بھی بڑا تعجب انگیز مقولہ دیکھنا چاہتے ہوں تو پھر عبد المنعم ماجد کے قول کو دیکھ لیجیے ۔ وہ کہتا ہے:
’’ حق بات تو یہ ہے کہ کہیں سے بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد اس امت مسلمہ کے لیے کوئی نظام حکومت چھوڑاتھا۔[2]
شریعت اسلامیہ سے جہالت اور لا علمی کا پیکر ایک اور تجزیہ بھی ملاحظہ فرمائیں ؛ سہیل زکار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لکھا ہے:
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکومت کے متعلق کوئی پائیدار اور واضح اور مستقل نظام نہیں لے کر آئے تھے ۔‘‘[3]
ان تمام اقوال پر رد کرنے کے لیے ‘جو یہ گمان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت میں اپنے قائد کے انتخاب کے لیے اہل جاہلیت کا طریقہ کار اپنایا
[1] الحیاۃ السیاسیۃ في الدولۃ العربیۃ الإسلامیۃ ص ۱۱۔
[2] التاریخ السیاسي للدولۃ العربیۃ ۱/۱۴۱۔
[3] تاریخ العرب والإسلام منذ ما قبل المبعث وحتی سقوط بغداد۶۷۔