کتاب: بیعت سقیفہ بنی ساعدہ نئے مؤرخین کی تحریروں میں - صفحہ 19
ایک مؤرخ نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ اے کاش! شریعت میں حکومت کے لیے بھی کوئی خاص نظام ہوتا۔اور کاش کہ کتاب و سنت میں مملکت کو چلانے کے لیے کوئی خاص نظام حکومت بھی ہوتا جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نافذ کرتے ‘اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اس کی نظام کی اتباع کرتے۔‘‘[1]
تھامس ارنالڈ نے عجیب خباثت کے ساتھ ایک دوسرا یہ سوال اٹھایا ہے :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد خلفاء کو متعین کیوں نہیں کیا؟
’’ یہ ایک بے فائدہ سی بات ہے کہ اس سبب کی تلاش میں رہیں کہ آپ نے یہ معاملہ ایسے ہی کیوں چھوڑ دیا تھا؟ حالانکہ تنظیمی امور میں آپ ایک عبقری شخصیت کے حامل تھے۔آپ کو چاہیے تھا کہ اپنی تاسیس کردہ اس نئی دینی جماعت کے مستقبل کے حوالے سے بھر پور احتیاط سے کام لیتے۔ ممکن ہے کہ آپ زندگی کے آخری ایام میں جسمانی اور عقلی اعتبار سے تشویش اور اضطراب کا شکار تھے [ اس وجہ سے ایسا نہ کرسکے]۔‘‘
اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد خلیفہ متعین نہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ آپ زمانہ وقت میں رائج عرب تقالید کی مخالفت نہیں کرنا چاہتے تھے ۔‘‘ [2]
[1] محمد أمین صالح ؛العرب و الإسلام من البعثۃ النبویۃ حتی نہایۃ الخلافۃ الأمویۃ ص ۱۲۷۔
[2] تھامس ارنالڈ ؛ الخلافۃ ص۱۹۔