کتاب: بیعت سقیفہ بنی ساعدہ نئے مؤرخین کی تحریروں میں - صفحہ 18
آپ کے ماننے والوں کے اذہان میں راسخ کرنے کے لیے مدد گار ثابت ہو۔‘‘[1]
عبدالعزیز الدوری نے کوشش کی ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں زیادہ باریک بینی سے بیان کرے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے :
’’ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کے لیے سیاسی نظام کا کوئی ڈھانچہ تشکیل نہیں دیا تھا۔ اس وجہ سے بات فطری تھی کہ مسلمان اس سیاسی نظام کی تشکیل کے لیے اسلامی مبادیات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے پرانے آباء و اجداد کی تقلید کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے خلیفہ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کے انتخاب میں جہاں جدید اسلامی رنگ پایا جاتا تھا وہیں پر اس میں پرانی قبائلی تقلید بھی تھی؛ اور یہ دونوں عنصر بڑے واضح تھے۔‘‘[2]
اور بعض لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حکومت کون کرے گا؟اور پھر خود ہی اس کا جواب بھی دیا ہے :
’’ یہ انتہائی گہرا اور سنجیدہ سوال تھا جو کہ مہاجرین و انصارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی اس بزرگ اورنیک دل نسل کے دلوں میں پیدا ہوا تھا۔‘‘[3]
[1] صدر الإسلام و الدولۃ الأمویۃ ص ۲۷۔
[2] مقدمۃ في تاریخ صدر الإسلام ص ۴۷۔
[3] نبیہ عاقل :مولد الحزبیۃ السیاسیۃ و قضیۃ الحکم ص ۷۹۔