کتاب: بیعت سقیفہ بنی ساعدہ نئے مؤرخین کی تحریروں میں - صفحہ 14
پروفیسر سہیل زکارہ کہتی ہے: ’’ ظاہر ہوتا ہے کہ مدینہ اس دور میں بد امنی اوربد انتظامی کا شکار تھا۔ اور ان اضطرابات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی تدفین سے لوگوں کو غافل کردیا۔[1] ہمارے مصادر یہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین وفات کی دوسری رات ہوئی۔ اور یہ تدفین اس وقت عمل میں آئی جب آپ کے اقرباء اور آل نے تیاری مکمل کرلی۔اوریہ تیاری اسی جگہ کی گئی جہاں پر آپ کی وفات کی گئی تھی۔اور ہمارے مصادر یہ بھی روایت کرتے ہیں کہ تدفین اس عادت کے مطابق ہوئی جو انبیاء کرام علیہم السلام کی تدفین سے متعلق ہوتی ہے۔ انہیں وہیں پر دفن کیا جاتا ہے جہاں پر ان کی ارواح قبض ہوتی ہیں ۔ لیکن صرف یہ وجہ اتنی زیادہ تاخیر کا سبب نہیں ہوسکتی۔ لیکن شاید اس کا حقیقی سبب یہ ہے کہ مدینہ بد انتظامی کا شکار تھا‘اور لوگ مشغول ہوگئے تھے ۔ پھر اس وقت کی فضاء نے لوگوں کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہیں پر تدفین کی جائے جہاں پر آپ کی وفات ہوئی تھی۔[2]
[1] تاریخ العرب والإسلام‘منذ ما قبل المبعث وحتی سقوط بغداد ۶۴۔ [2] دیکھیں کیسے محض وہم کی بنیاد پر روایت کو مشکوک بنایا جارہا ہے۔ جبکہ یہ حدیث نبوی ہے ‘ اس میں کوئی استحسان یا پھر کوئی دوسرا معاملہ نہیں ۔اس حدیث کو ان محدثین نے روایت کیا ہے: ابن ماجۃ کتاب الصلاۃ ‘ باب صلاۃ رسول اللہ في مرضہ بإسنادٍ صحیح ؛ ورواہ الترمذي ‘ والطبراني۔ والنسائی؛ و البیہقي في دلائل النبوۃ۔ أنظر ابراہیم العلي ؛ صحیح السیرۃ النبویۃ ص ۵۸۲۔