کتاب: بیعت سقیفہ بنی ساعدہ نئے مؤرخین کی تحریروں میں - صفحہ 11
کہ وہ دو نئی آیات گھڑ کر قرآن میں ان کا اضافہ کردے تاکہ وہ نئی سیاسی صورت حال سے فائدہ اٹھاسکے۔‘‘[1] حالانکہ یہ بات کوئی بھی ایسا انسان نہیں کہہ سکتا جسے کچھ بھی اپنے نفس کا احترام ہو ‘ اور جسے علم سے ادنیٰ سا واسطہ بھی ہو۔ اور نہ ہی یہ رائے کسی رد کی محتاج ہے۔ لیکن اس کو یہاں پر بیان کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ میں مستشرقین کی اس آفت کو بیان کروں ؛ جس میں وہ کسی عقلی چیز سے بھی سند نہیں لیتے علم تو بہت دور کی بات ہے۔ حالانکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ عالم تھا کہ آپ اپنی رائے سے بغیر علم کے تفسیر بیان کرنے سے بھی ڈرتے تھے ؛ تو پھر یہ دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے کہ آپ نے قرآن میں اضافہ کردیا ۔ حالانکہ آپ فرمایا کرتے تھے: ’’ کون سا آسمان مجھ پر سایہ کرے گا یا کون سی زمین مجھے اٹھائے گی جب میں قرآن کی تفسیر میں اپنی رائے سے کوئی بات کہوں گا۔‘‘[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات بھی اچانک نہ تھی۔ بلکہ آپ صفر کے آخر یا ربیع الاول کے شروع سے لیکر بارہ ربیع الاول تک بیمار رہے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال اچانک نہیں ہوا؛بلکہ کئی راتیں آپ بیمار رہے۔ بلال رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ کو نماز کی اطلاع
[1] عمر فاخوری : آراء غربیۃ في مسائل شرقیۃ ص ۱۱۵۔ أنور الجندی طہ حسین ص ۶۶-۶۷۔ [2] ابن القیم ؛ إعلام الموقعین ۱/۸۹۔