کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 99
ہے کہ میں نے خبیب سے بہتر قیدی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ان کے ہاتھ میں انگور کا خوشہ دیکھا، وہ اس کو کھا رہے تھے، حالانکہ وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے، مکہ مکرمہ میں اس زمانہ میں کوئی پھل نہیں آ رہا تھا، وہ رزق اللہ کی طرف سے تھا اور اللہ ہی نے خبیب رضی اللہ عنہ کو دیا تھا، پھر کافر حضرت خبیب کو لے کر حدود حرم کے باہر گئے تاکہ انہیں قتل کریں۔ حضرت خبیب نے ان سے کہا: مجھے اتنی مہلت دو کہ میں دو رکعت نماز پڑھ لوں۔ کافروں نے انہیں چھوڑ دیا، انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی، اس کے بعد کہا اگر تم یہ خیال نہ کرتے کہ مجھے قتل کا خوف ہے تو میں طویل نماز پڑھتا۔ پھر اس طرح دعا کی: ’’اے اللہ! ان کو گن لے، ان کو علیحدہ علیحدہ مار اور ان میں سے کسی کو نہ چھوڑ۔‘‘ پھر یہ شعر پڑھے: ولستُ أُبالي حِينَ أُقتَلُ مُسلِمًا على أيِّ شِقٍّ كانَ للّٰه مَصرعي وذَلكَ في ذاتِ الإِلهِ وإنْ يَشَأْ يُبارِكْ على أَوْصالِ شِلْوٍ مُمزَّعِ ’’جبکہ میں اسلام پر قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ میں کس پہلو پر گرتا ہوں۔ یہ مصیبت تو اللہ کی راہ میں پہنچ رہی ہے اور اگر اللہ چاہے تو کٹے ہوئے اعضاء کے ٹکڑوں میں برکت عطا فرمائے۔‘‘ اس کے بعد حارث کے بیٹے نے انہیں شہید کر دیا۔ حضرت خبیب ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے ہر اس مسلم کے لئے جو قید کر کے قتل کیا جائے۔ دو رکعت مسنون کر دیں (کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس فعل کو برقرار رکھا اور ناپسند نہیں فرمایا) اللہ تعالیٰ نے حضرت عاصم بن ثابت کی دعا قبول فرمائی جو انہوں نے