کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 90
ہو جائے گی، صبر و ثبات میں پوری نہیں اترے گی اور جو اطاعت و نظام میں کچی ہو گی وہ خدا کی تائید و نصرت کی مستحق نہیں ہو سکتی۔ جب مسلمانوں کی بڑی تعداد مضطرب ہو کر بھاگنے لگی تو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) چند جانثاروں کے حلقہ میں کھڑے پکار رہے تھے۔ خدا کے بندو میری طرف آؤ، میری طرف آؤ۔ تم کہاں بھاگے جا رہے ہو؟ ان آیات میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ جو لوگ ایمان و اخلاص میں پکے تھے اور محض صورت حال کے فوری اثر نے انہیں گھبرا دیا تھا۔ وہ پیغمبر اسلام کی آواز سنتے ہی چونک اٹھے۔ انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے اچانک ایک مدہوشی کی سی حالت طاری ہو گئی اور اس مدہوشی میں سارا خوف و ہراس فراموش ہو گیا۔ چنانچہ وہ فوراً پلٹے اور نہ صرف دشمنوں کو میدان جنگ سے بھگا ہی دیا، بلکہ حمراء الاسد نامی مقام تک جو مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے، ان کے تعاقب میں بڑھتے چلے گئے لیکن جو لوگ دل کے کچے یا منافق تھے، انہیں اپنی جانوں کی فکر لگی رہی۔ وہ کہتے تھے جو کچھ ہوا، اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ اگر خدا فتح و نصرت دیتا تو ایسی حالت کیوں پیش آتی؟ قرآن کہتا ہے یہ عہد جاہلیت یعنی عرب کے قبل از اسلام زمانے کے سے خیالات ہیں اور ان دلوں میں نہیں گزر سکتے، جو اسلام کی تعلیم سے روشن ہو چکے ہیں۔ بلاشبہ فتح و نصرت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن وہ فتح و نصرت انہی کو دیتا ہے جو صبر تقویٰ میں پکے ہوتے ہیں۔ اصل کام اعلائے حق اس موقع سے فائدہ اٹھا کر تمہیں ایسی راہ پر لگانا چاہتے ہیں کہ راہ حق سے بے دل ہو جاؤ۔ وہ تمہیں دشمنوں کی کثرت و طاقت کے افسانے سنا کر مرعوب کرنا چاہتے ہیں، لیکن اگر تم راہ حق میں ثابت قدم رہے اور انسانی طاقتوں کی جگہ اللہ کی کارسازی و رفاقت پر بھروسا رکھا تو وہ وقت