کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 9
جنگ کے باوجود صلح و آشتی کی اہمیت جنگ میں زیادتی سے بچنے کی تلقین معاہدات کی سختی سے پابندی، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں سے نیک سلوک، عبادت گاہوں کا احترام، درختوں، فصلوں اور پانی کے چشموں کی حفاظت، گرے ہوئے دشمنوں سے نرمی، قیدیوں سے حسن سلوک اور اسی طرح کے دیگر کئی امور اس امر کی توثیق کرتے ہیں کہ جہاد ایک تعمیری اور حد درجہ اصولی قسم کی جنگ ہے۔اس کی اخلاقی حدود متعین ہیں اور ان میں اشتعال اور تجاوز سے ہر صورت میں منع کیا گیا ہے۔
کوئی شریف النفس، سلیم الطبع ایک لمحے کے لئے بھی جنگ کا حامی نہیں بن سکتا۔ کون پسند کرتا ہے کہ اس کا باپ اس کے لئے زندگی بھر روتا رہے، کون سی خاتون پسند کرتی ہے کہ اس کا سہاگ لٹ جائے اور نہ کوئی خواہش کر سکتا ہے کہ اس کے ملک کے میدان خون سے لالہ زار ہوں، نہروں اور دریاؤں میں خون بہنے لگے، سروں کی فصل کٹنے لگے۔ سنگدل لوگ ہی اپنے جیسے انسانوں کو آلام و مصائب کا تختہ مشق بنتا دیکھ کر خوش ہو سکتے ہیں۔ لیکن ٹھہرئیے کبھی یہ جنگ ایک مقدس فرض کا روپ دھار لیتی ہے۔ جب خدا کو معبود ماننا چھوڑ دیا جائے اور سینکڑوں طاغوتوں کو مسجود تسلیم کیا جانے لگے۔ جب شرک و بدعت کا بازار گرم ہو، جب لوگ رحمٰن سے سرکشی کر کے شیطان کے پیرو بن جائیں، جب حدود اللہ معطل ہو جائیں، حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرا لیا جائے اور عورتوں پر ظلم و استبداد کر کے پہاڑ توڑے جائیں تو پھر جہاد فرض ہو جاتا ہے۔
ایک مقدس فرض اور اس مقدس فرض کی ادائیگی کو اصطلاح شریعت میں جہاد کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جہاد کو شرعی اصطلاح میں ایک مقدس فریضہ یا اس فریضے کی بجا آوری کہتے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حرم مکہ میں کئی طرح کی اذیتیں دی گئیں