کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 89
رکھنا چاہتے تھے۔ یہاں ان تمام باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور منافقوں کو آخری مہلت دی گئی ہے کہ اپنی منافقانہ روش سے باز آ جائیں ورنہ وہ وقت آ گیا ہے کہ ان کے چہروں پر سے نفاق کا پردہ اٹھا دیا جائے گا۔ ان آیات میں منافقوں کی جو نفسیاتی حالت دکھائی گئی ہے وہ کوئی مخصوص صورت حال نہیں۔ اگر غور کرو گے تو معلوم ہو جائے گا کہ جماعت کے کمزور اور متذبذب افراد ہمیشہ ایسی ہی صورت پیدا کر دیا کرتے ہیں۔ جس طرح جنگ بدر کی فتح مندی سے مسلمانوں کی تربیت مدنظر تھی، اسی طرح جنگ اُحد کی عارضی شکست میں بھی تربیت کا پہلو پوشیدہ تھا۔ ایک دوڑنے والے کی مشق کے لئے صرف یہی کافی نہیں ہوتا کہ وہ بے روک ٹوک دوڑتا چلا جائے بلکہ اس کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ ایک دو مرتبہ گر کر گرنے اور سنبھلنے کا سبق بھی سیکھ لے۔ بدر کی فتح مندی نے استعداد و سعی کی برکتیں دکھا دی تھیں۔ ضرورت تھی کہ اب کمزوری و تغافل کے نتائج کا بھی تجربہ ہو جائے۔ چنانچہ اُحد کے حادثہ نے یہ مقصد پورا کر دیا۔ بدر کی فتح مندی اور تائید الٰہی کی بشارتوں نے بہت سے مسلمانوں میں ایک طرح کی بے پروائی اور غفلت پیدا کر دی تھی۔ وہ سعی و تدبیر کی کاوشوں سے بےحس ہو گئے تھے اور سمجھنے لگے تھے کہ ہم کوشش کریں یا نہ کریں ہر حال میں ہمارے لئے فتح ہی ہے۔ اس طرح کی خام خیالیاں ابتدائی فتح مندیوں کے بعد پیدا ہو جایا کرتی ہیں، لیکن یہ ایک خطرناک حالت تھی اس کا نتیجہ غفلت و غرور تھا اور ضروری تھا کہ اس کی نشوونما روک دی جائے۔ پس اُحد کے تجربوں نے مسلمانوں کو بتلا دیا کہ خدا کی تائید و نصرت کا وعدہ برحق ہے، لیکن اس کے تمام کاموں کی طرح اس کی تائید و نصرت کے بھی سنن و قوانین ہیں اور ضروری ہے کہ انہی کے مطابق نتائج بھی ظہور میں آئیں جو جماعت کمزوری و غفلت میں مبتلا