کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 88
جنگ اُحد کا معاملہ منافقوں کے لئے جو مخلص مسلمانوں کے ساتھ ملے جلے زندگی بسر کر رہے تھے ایک فیصلہ کن آزمائش تھا۔ اس موقع پر ان کا نفاق پوری طرح کھل گیا۔ جنگ کے ابتدائی مشورے سے لے کر جنگ کے بعد تک کوئی موقع ایسا نہیں آیا کہ فتنہ پروری سے باز رہے ہوں۔ جب کثرت رائے سے یہ بات قرار پائی کہ شہر سے باہر نکل کر مقابلہ کرنا چاہیے تو لوگوں کو بہکانے لگے کہ باہر نکل کر لنا موت کے منہ میں جانا ہے۔ جب ان سے کہا گیا کہ اچھا شہر کی مدافعت کرو تو طرح طرح کے بہانے کرنے لگے۔ کہتے تھے ہمیں امید نہیں کہ لڑائی کی نوبت آئے۔ اگر امید ہوتی تو ضرور تیاری کرتے۔ پھر جب لوگوں کی کمزوری اور نافرمانی سے شکست ہو گئی تو انہیں فتنہ و شرارت کا نیا موقع ہاتھ آ گیا۔ کبھی کہتے یہ سب کچھ اسی لئے ہوا کہ ہماری بات نہیں مانی گئی۔ کبھی کہتے روز روز کی لڑائیوں سے کیا فائدہ؟ نجات اسی میں ہے کہ دشمنوں کو راضی کر لیا جائے۔ مقصود یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کے دلوں میں مایوسی اور ہراس پیدا کر دیں، اور ان کی کوئی بات بھی ٹھیک طور پر نہ بن جائے۔ اُحد کے میدان سے جاتے ہوئے دشمن کہہ گئے تھے کہ آئندہ سال پھر آئیں گے اور آخری فیصلہ کر کے جائیں گے۔ دوسرے سال جب وہ وقت آیا تو مسلمان تیار ہو کر باہر نکلے، لیکن دشمنوں کا کوئی پتا نہ تھا۔ انہیں مکہ سے نکلنے کی جراءت ہی نہ ہوئی۔ مسلمان چند دن تک انتظار کر کے خوش دل اور کامیاب واپس آ گئے لیکن اس موقع پر منافقوں نے دشمنوں سے مل کر ہر طرح کی شرارتیں کیں۔ دشمن چاہتے تھے کہ ڈر جانے کی ذلت ان کے حصے میں نہ آئے، مسلمانوں کے حصے میں آئے اور یہ جبھی ہو سکتا تھا کہ مسلمان جنگ کے لئے آمادہ نہ ہوں، چنانچہ مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے مخبر بھیجے گئے اور بہت سی افواہیں مشہور کر دی گئیں۔ منافق انہیں پھیلاتے اور مسلمانوں کو سرگرمی سے باز