کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 87
ڈسپلن کی روح پوری طرح پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے ضروری تھا کہ اب کسی بات پر زور دیا جائے، جس کی فوری تعمیل میں اطاعت و فرمانبرداری کی پوری پوری آزمائش ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ آزمائش سود لینے کی ممانعت سے زیادہ اور کسی بات میں نہیں ہو سکتی تھی۔ سود کی حرمت سے قرض خواہوں کو ایک ایسی بات چھوڑ دینی پڑتی جسے صدیوں سے اپنا حق سمجھتے آئے تھے اور ان کے مال و دولت کی افزائش کا یہ سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ فرمایا: تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) سے خطاب، موعظت اور منصب امامت کی بعض اصولی مہمات۔ یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تمہارے دل میں نرمی اور مزاج میں شفقت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگوں کے دل تمہاری طرف سے بے اختیار نہ کھنچتے جس طرح اب کھنچ رہے ہیں۔ جنگ اُحد میں ایک گروہ کی لغزش بڑی ہی سخت لغزش تھی تاہم تمہاری شفقت کا مقتضا یہی ہے کہ عفوودرگزر سے کام لو۔ تمہارا طریق کار یہ ہونا چاہیے کہ صلح و جنگ کا کوئی معاملہ بغیر مشورے کے انجام نہ پائے۔ اس بارے میں دستور العمل یہ ہے کہ پہلے جماعت سے مشورہ کرو پھر مشورہ کے بعد کوئی اک بات ٹھان لی تو اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جاؤ۔ شوریٰ اپنے محل اور وقت میں ضروری ہے۔ عزم اپنے محل اور وقت میں۔ جب تک مشورہ نہیں کیا ہے، کوئی نکتہ چینی اور کوئی مخالفت اسے متزلزل نہیں کر سکتی۔ (72) امام کے لئے ضروری ہے کہ جماعت سے مشورہ کرے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ امام صاحب عزم ہو۔