کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 86
ہلاک کر ڈالنا چاہا۔ تاہم خدا نے پسند نہیں کیا کہ دشمنوں کی ہدایت و بخشش کی طلب کے سوا کوئی جذبہ ان کے قلب میں پیدا ہوا۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) اے پیران دعوت! جو ٹھوکر تمہیں اُحد میں لگی ہے۔ اگر چاہتے ہو کہ اس سے عبرت پکڑو تو چاہیے کہ ان آلودگیوں سے پاک و صاف ہو جاؤ جو تمہارے دلوں میں کمزوری کا روگ پیدا کرنے والی ہیں۔ از انجملہ مال و دولت کی حرص ہے۔ جب تک یہ روگ دلوں میں موجود ہے، جان فروشی کی سچی روح پیدا نہیں ہو سکتی۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص گھاٹی پر جو نقشہ جنگ میں بڑی اہمیت رکھتی تھی ایک جماعت متعین کر دی تھی اور کہہ دیا تھا کہ اس جگہ سے نہ ہلیں، لیکن جب مسلمانوں کے فتح مندانہ مقابلہ نے دشمنوں کے پاؤں اکھاڑ دئیے تو یہ جماعت (بجز دس آدمیوں کے) مال غنیمت لوٹنے کی طمع میں بے قابو ہو گئی اور مورچہ چھوڑ کر لوٹ مار شروع کر دی۔ دشمنوں نے جب یہ حال دیکھا تو فوراً پلٹ پڑے اور بے خبری میں حملہ کر دیا۔ یہی حادثہ ہے جس نے مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل دی تھی۔ چونکہ مورچہ چھوڑنے والوں کی لغزش کا اصلی سبب مال و دولت کی طمع تھی اور مال و دولت کی طمع کا ایک بڑا آلہ سود کا لین دین تھا اس لئے خصوصیت کے ساتھ یہاں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ سود در سود کی وجہ سے بڑی بڑی رقمیں قرض داروں کے سر چڑھ گئی تھیں، قدرتی طور پر ان کا چھوڑنا لوگوں پر شاق گزرتا تھا۔ بس حکمِ الٰہی ہوا کہ تمہارے دلوں کے تزکیہ کے لئے اس بات میں سب سے بڑی آزمائش ہے۔ سود در سود کی وجہ سے کتنی ہی رقم قرض داروں پر نہ چڑھ گئی ہو، اسے یک قلم چھوڑ دو۔ علاوہ بریں جنگ اُحد کی شکست کا اصلی سبب یہی تھا کہ نظام و اطاعت یعنی