کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 85
اللہ نے فرمایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ مومن اور منافق اکٹھے رہ سکیں بلکہ منافقوں کو مسلمانوں سے بالکل الگ تھلگ کر کے رکھ دوں گا۔ منافق بھول جائیں کہ ان کا نفاق چھپا رہے گا۔ (مَّا كَانَ ا للّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ) (71) ’’(اے لوگو!) اللہ ایمان والوں کو اس حال پر نہ چھوڑے گا جس پر تم ہو یہاں تک کہ جدا کر دے ناپاک کو پاک سے۔‘‘ جنگ بدر اور اُحد کے نتائج نے ثابت کر دیا تھا کہ صبر و تقویٰ کے بغیر نصرت و کامرانی حاصل نہیں ہو سکتی۔ جنگ بدر کے موقع پر دونوں قوتیں موجود تھیں، اس لئے مسلمانوں کی مٹھی بھر تعداد نے دشمن کی بہت بڑی تعداد کو شکست فاش دی۔ لیکن جنگ اُحد میں ایک گروہ نے کمزوری دکھائی، وہ صبر و تقویٰ کی آزمائش میں پورا نہ اترا نتیجہ یہ نکلا کہ نقصان ہوا۔ سورۃ آل عمران میں (جہاں اُحد کا ذکر آیا) متعدد اصولی مہمات واضح کر دی گئی ہیں۔ جنگ اُحد کے موقع پر کثرت رائے سے یہ بات قرار پا گئی تھی کہ شہر سے نکل کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے۔ چنانچہ مسلمان نکلے۔ منافقوں نے لوگوں کو بہکانا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دو قبیلے بددل ہو گئے۔ اس طرح ابتداء ہی سے صبر اور تقویٰ کی روح کمزور پڑ گئی۔ اس کا نتیجہ وہی ہونا تھا جو آخر پیش آیا۔ ضمناً اس حقیقت کی طرف اشارہ کہ ظلم و کفر کرنے والوں کو بداعمالیاں کتنی ہی سخت کیوں نہ ہوں، لیکن ہادی و مصلح کو ان کی ہدایت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور نہ رحمت و بخشش کی طلب کے سوا کوئی اور جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے۔ بخشنا یا نہ بخشنا خدا کا کام ہے اور اسی پر چھوڑ دینا چاہیے۔ جنگ اُحد میں خود پیغمبر اسلام پر دشمنوں نے پے در پے حملے کئے اور انہیں