کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 81
’’اور بےشک اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا جب تم اس کے حکم سے انہیں قتل کرتے تھے یہاں تک کہ جب تم نے بزدلی دکھائی اور اپنے کام میں اختلاف کیا اور تم نے نافرمانی کی اس کے بعد کہ اللہ تمہیں دکھا چکا تھا تمہاری پسندیدہ چیز۔‘‘ پھر آئندہ کے لیے ارشاد فرمایا: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَّوْ كَانُوا عِندَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ ا للّٰهُ ذَٰلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ وَا للّٰهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۗ وَا للّٰهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴿١٥٦﴾ وَلَئِن قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ ا للّٰهِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ ا للّٰهِ وَرَحْمَةٌ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ﴿١٥٧﴾وَلَئِن مُّتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لَإِلَى اللّٰهِ تُحْشَرُونَ ﴿١٥٨﴾) (61) ’’اے ایمان والو! کافروں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے اپنے بھائیوں کے متعلق کہا جب انہوں نے سفر کیا یا کسی لڑائی میں گئے (اور لقمہ اجل بن گئے) اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کئے جاتے تاکہ اللہ اس بات کو ان کے دلوں میں حسرت (کا سبب) بنا دے اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ (ہی) جلاتا اور مارتا ہے اور تمہارے سب کاموں کو خوب دیکھ رہا ہے۔ اور البتہ اگر تم اللہ کی راہ میں قتل کئے جاؤ یا تمہیں موت آ جائے تو یقیناً اللہ کی مغفرت اور رحمت بہتر ہے اس (دنیاوی دولت) سے جسے وہ جمع کرتے ہیں اور اگر تمہیں موت آ جائے یا قتل کئے جاؤ تو ضرور تم اللہ کی طرف جمع کئے جاؤ گے۔‘‘ اس جنگ میں بعض مومنین سے غلطی ہوئی، دنیا طلبی نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر اُبھارا۔ ان کی غلطی کی وجہ سے مومنین کو کافی نقصان پہنچا۔ نافرمانی کرنے والوں نے ہمت ہار دی اور میدان جنگ سے بھاگنے لگے، اللہ نے ان کی اس غلطی کو معاف فرما دیا۔