کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 8
یعنی ہر شخص پر جہاد واجب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ ‘‘ پس مشرکین کو قتل کرو۔ جہاد اسلام کا ایک اجتماعی فریضہ ہے۔ اس کو سرانجام دینے میں بطور عبادت ہر وہ کوشش اور محنت شامل ہے جو ملت کے استحکام میں جملہ اجتماعی امور میں اور مجاہد سے لے کر ملت کے معین مصالح مثلاً حق کی سربلندی اور اعلائے کلمۃ اللہ، مظلوموں کی حمایت، جملہ حملہ آوروں کا مقابلہ اور اِس میں آگے بڑھ کر اِن کی کمین گاہوں، درسگاہوں، چھاؤنیوں، سلسلہ رسل و رسائل اور ان کی مرکزی قوت کو ختم کرنے تک سب امور شامل ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ جہاد صرف قتال کا نام نہیں بلکہ استحکام ملت کی ہر کوشش کو جہاد کہا گیا ہے۔ اسلام چونکہ رہبانیت پر اعتقاد نہیں رکھتا۔ اس لئے قتال کی مجبوری سے اجتناب نہیں برتتا۔ لہٰذا مسلمانوں کو اِس کے لئے بھی ہمہ وقت تیار رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو عالمگیر ہونے کا تقاضا کرتا ہے اور دنیا کے موجودہ نظاموں سے برتر ہونے کا مستحق ہے۔ یہ باطل کی ساری قوتوں کے لئے چیلنج ہے، اِس لئے باطل قوتوں سے برسرپیکار رہنا اس کے فرائض میں شامل ہے اور جہاد کی تمام صورتوں (بشمول قتال) کے لئے تیار رہنا ضروری ہے۔ مستشرقین یہ غلط فہمی عام کر رہے ہیں کہ جہاد محض تبلیغ کے لئے لڑائی کا نام ہے جو کسی طرح صحیح نہیں۔ یہ بات حقائق قتال قرآنی اور واقعاتِ تاریخ کے سراسر خلاف ہے۔ جہاد اندھا دھند جنگ و جدال کا نام نہیں۔ بلکہ مقاصد ملت کی خاطر ایک بااصول جنگ ہے، جو معین اصولوں، پابندیوں اور احتیاطوں کے ساتھ لڑی جاتی ہے اور ان احتیاطوں کا قرآن و حدیث میں صراحت کے ساتھ ذکر آیا ہے۔