کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 77
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ بھی اس جنگ میں شہید ہوئے، کفار نے ان کے اعضاء کاٹ دئیے تھے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور بار بار ان کے چہرہ کو کپڑا ہٹا ہٹا کر دیکھتے رہے۔ صحابہ نے انہیں منع کیا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں کیا۔ جب حضرت عبداللہ کو دفن کرنے کے لئے اٹھایا گیا تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی پھوپھی بھی اپنے بھائی کی لاش کو دیکھ کر رونے لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ کون ہے؟‘‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’یہ عمرو کی بیٹی ہے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان پر مت رو (بلکہ خوش ہو کہ) فرشتے ان پر اپنے پروں سے اس وقت تک سایہ کئے رہے جب تک وہ اٹھائے نہ گئے‘‘ (اللہ نے ان کو بڑا اعزاز بخشا ہے) (54) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُحد کی لڑائی کا دن آیا (اور مسلمان شہید ہوئے) تو میری پھوپھی میرے والد کو ہم لوگوں کے قبرستان میں دفن کرنے کے لئے لائیں، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے ندا دی کہ شہیدوں کو ان کے شہید ہونے کی جگہ واپس لے جاؤ۔ (55) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء کی تدفین شروع کی تو دو دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر قبر میں رکھا۔ ہر قبر میں ایک بغلی بھی بنوائی گئی۔ جب آپ دفن کرتے تو دریافت فرماتے کہ ان میں سے کون قرآن مجید کا زیادہ عالم تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا جاتا تو آپ اسے بغلی قبر میں رکھتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تمام شہداء خون میں لتھڑے ہوئے دفن کئے گئے، نہ ہی انہیں غسل دیا گیا اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔ دفن کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں قیامت کے دن ان لوگوں پر گواہ ہوں گا‘‘ (56) حضرت ہشام بن عامر فرماتے ہیں کہ اُحد کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم