کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 76
خداوندی ہے۔ (وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ ﴿١٤١﴾) (49) ’’اور کافروں کو نابود کر دے‘‘۔ اس جنگ میں ستر مسلمان شہید ہوئے (50) چند ایک کے علاوہ سب انصار تھے۔ (51) اس جنگ میں حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔ انہیں ایک چادر میں کفنایا گیا، وہ اتنی چھوٹی تھی کہ اگر سر ڈھانکتے تو پیر کھل جاتے اور اگر پیر ڈھانکتے تو سر کھل جاتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سر ڈھانک دو اور پاؤں پر گھاس ڈال دو۔ (52) حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے لوائے نبوی کو گرنے نہ دیا تھا۔ دشمن افراتفری کے عالم میں اسلامی جھنڈے کو لہراتے دیکھ کر سانپ کی طرح بل کھا رہا تھا۔ آخر عبداللہ بن قمیہ سے رہا نہ گیا۔ وہ پے در پے ان پر حملے کرنے لگا۔ کوئی ان کی پامردی اور جانبازی دیکھتا کہ اسلامی پھریرا کسی طور سرنگوں نہیں ہو رہا تھا۔ ابن قمیہ گھوڑے پر سوار تھا اور پینترے بدل بدل کر علمبردار پر حملے کر رہا تھا۔ ایک موقع پر اس کی تلوار حضرت مصعب کے داہنے ہاتھ پر پڑی اور ہاتھ کہنی سے کٹ گیا۔ انہوں نے لوائے نبوی کو بائیں ہاتھ میں لے لیا۔ قمیہ چراغ پا ہو گیا۔ گھوڑا پھیر کر پھر تلوار ماری، اب کے دوسرا ہاتھ بھی کہنی سے جدا ہو گیا، مجاہد نے دونوں کٹی ہوئی کہنیوں میں اسلامی جھنڈے لے کر تھام کر سینہ سے چمٹا لیا۔ ابن قمیہ نے دیکھا کہ پھریرا اسی شان سے بلند ہے تو دور سے گھوڑا دوڑاتا آیا۔ زور سے نیزے کو ان کے سینہ میں اتار دیا۔ ان کے قدم لڑکھڑائے پرچم سرنگوں ہونے لگا تو بڑھ کر ان کے بھائی ابو الروم نے علم تھام لیا۔ حضرت انس بن نضر بھی اس جنگ میں شہید ہوئے، ان کے بدن پر نیزے، تلوار اور تیر کے اسی سے زیادہ نشان تھے۔ ان کی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ پہچانے نہیں جاتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی بہن ربیع رضی اللہ عنہا نے انگلیوں کے پوروں کو دیکھ کر انہیں پہچانا۔ (53)