کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 75
ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون کفار کا تعاقب کرے گا؟ اگرچہ مومنین کافی زخمی ہو چکے تھے، تاہم ستر آدمی فوراً تیار ہو گئے، جن میں ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے، ان لوگوں کے متعلق اللہ نے ارشاد فرمایا: (الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلّٰهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿١٧٢﴾) (46) ’’جنہوں نے باوجود زخم کھانے کے اللہ اور رسول کے حکم کو قبول کیا۔ جو لوگ ان میں نیکوکار اور پرہیزگار ہیں ان کے لئے بڑا ثواب ہے۔‘‘ صحابہ کرام نے کفار کا تعاقب کیا تو وہ بھاگ گئے۔ مومنوں کو ڈرایا گیا کہ کافر پھر ازسرنو منظّم ہو کر تم پر حملہ کرنے والے ہیں، لیکن صحابہ کرام اس پروپیگنڈہ سے متاثر ہوئے اور نہ ہی وہ ڈرے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ دوبارہ حملہ آور ہوئے تو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں ان کا مقابلہ کروں گا۔ اللہ نے مومنوں کو آئندہ بھی اسی قسم کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا: (إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٧٥﴾) (47) ’’یہ (خوف دلانے والا) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تو اگر تم مومن ہو تو ان سے مت ڈرنا، اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا۔‘‘ اگرچہ دوران جنگ مسلمانوں کو کافی مصائب کا سامنا کرنا پڑا بالآخر فتح ان ہی کی ہوئی، کفار میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان میدان جنگ میں ڈٹے رہے، پھر کفار کا تعاقب کیا۔ (لِيَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَوْ يَكْبِتَهُمْ فَيَنقَلِبُوا خَائِبِينَ ﴿١٢٧﴾) (48) ’’(یہ خدا نے) اس لئے (کیا) کہ کافروں کی ایک جماعت کو ہلاک یا انہیں ذلیل و مغلوب کر دے کہ (جیسے آئے تھے ویسے ہی) ناکام واپس جائیں۔ ارشاد