کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 73
اٹھاتے تھے اور وہ پھر گر پڑتی تھی۔ (40) مشرکین میں ایک شخص، جس نے کچھ مسلمانوں کو آگ میں جلایا تھا، اس کو میدان جنگ میں دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے فرمایا: ’’تیر مارو‘‘ انہوں نے حکم کی تعمیل میں بے پھل کا تیر اسے مارا۔ اور وہ تیر اس شخص کے پہلو میں لگا۔ تیر لگتے ہی وہ گر پڑا اور اس کا ستر کھل گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے قتل کی بڑی خوشی ہوئی۔ آپ اتنا مسکرائے یہاں تک کہ آپ کی کچلیاں نظر آنے لگیں۔ (41) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلیم اور ان کے ساتھ انصار کی اور عورتوں کو ساتھ لے جا کر جہاد کیا کرتے تھے۔ یہ عورتیں پیاسوں کو پانی پلاتیں، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ (42) بخاری شریف میں ہے ’’صحابہ کرام کافی زخمی ہو چکے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا اپنے دامن اٹھائے ہوئے اس حال میں تھیں کہ ان کی پازیبیں دکھائی دے رہی تھیں، اپنی پیٹھ پر مشکیں اٹھا اٹھا کر لاتیں، اور زخمی لوگوں کے منہ میں پانی ڈالتی تھیں۔ جب مشکیں خالی ہو جاتیں تو پھر جا کر بھر لاتیں۔ حضرت ربیع بنت معوذ اور دوسری مسلمان عورتیں بھی زخمیوں کو پانی پلا رہی تھیں، ان کی خدمت اور مرہم پٹی کر رہی تھیں، زخمیوں اور مقتولین کو مدینہ منتقل کر رہی تھیں۔ (43) اسی اثناء میں جنگ رک گئی۔ ابوسفیان پہاڑ پر چڑھے اور کہا: ’’کیا اس قوم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان کو جواب مت دو‘‘ ابوسفیان نے کہا: ’’اس قوم میں ابوبکر بن ابی قحافہ ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جواب مت دو‘‘ پھر ابوسفیان نے کہا: ’’کیا اس قوم میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں؟‘‘ اس کے