کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 72
گا۔ آزادی کی لالچ میں وحشی جنگ اُحد میں شریک ہوئے اور پتھر کے پیچھے چھپ کر حضرت حمزہ کی گھات میں بیٹھ گئے۔ لڑتے لڑاتے جب حضرت حمزہ وحشی کے قریب سے گزرے تو وحشی نے اپنا ہتھیار پھینک کر مارا اور ان کی ناف کے نیچے پھالا رکھ کر اس زور سے دبایا کہ ان کے دونوں کولہوں کے پار ہو گیا۔ زخم اتنا شدید تھا کہ حضرت حمزہ جانبر نہ ہو سکے اور ان کی وفات ہو گئی۔ (26) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس جنگ میں شدید زخمی ہوئے۔ آپ کا سامنے والا ایک دانت بھی ٹوٹ گیا۔ شدت ضرب سے سر مبارک پر خود ٹوٹ گیا اور چہرہ انور بھی زخمی ہو گیا (37) اور خون بہنے لگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خون صاف کرتے جاتے فرما رہے تھے۔ وہ قوم کیونکر فلاح پا سکتی ہے جو اپنے نبی کے چہرے کو رنگین کر دے۔ حالانکہ وہ تو انہیں کے رب کی طرف بلا رہا ہے۔ اللہ نے فرمایا اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے اور یہ لوگ مسلمان ہو جائیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ ان کو عذاب میں مبتلا کر دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔ (38) گھمسان کا رن پڑا، مشرکین نے اپنی تمام قوتوں کو بدر کا بدلہ لینے کے لئے اُحد میں جھونک دیا تھا۔ مسلمان شدید آلام و مصائب میں گھر گئے، جلیل القدر صحابہ شہید ہوئے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو بے پناہ صدمہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کی ایک جماعت پر غنودگی طاری کر دی، غنودگی کی وجہ سے دہشت اور گھبراہٹ دور ہو گئی، صحابہ کرام پھر تروتازہ ہو گئے۔ (ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَىٰ طَائِفَةً مِّنكُمْ ۖ) (39) ’’پھر خدا نے غم و رنج کے بعد تم پر تسلی نازل فرمائی (یعنی) نیند کہ تم میں سے ایک جماعت پر طاری ہو گئی۔‘‘ اس غنودگی کے عالم میں ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے دو تین مرتبہ تلوار گر پڑی، وہ