کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 71
خدشہ ہوا کہ وہ کہیں اس کا حق ادا نہ کر سکیں) حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ سماک بن خرشہ نے کہا: ’’میں اسے لے کر اس کا حق ادا کروں گا‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار انہیں دے دی، انہوں نے تلوار لے کر کفار پر پوری طاقت کے ساتھ حملہ کیا اور بہت سے کافروں کے سر پھاڑ دئیے۔ (35) کوئی ابو دجانہ کو دیکھتا تو موت کے منہ میں آنکھیں ڈال کر لڑنے کا مطلب سمجھتا کہ آپ کس قدر دلیری اور جواں مردی کے ساتھ دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے، دشمنوں کی کثرت کو خاطر میں نہ لائے۔ ماتھے پر سرخ پٹی باندھ لی۔ یہ سرخ پٹی مشرکوں کے لئے موت کی پگڑی تھی۔ جو دشمن بھی سامنے آیا اسے واصل جہنم کیا۔ ان کی معرکہ آرائی نے کفار میں ہلچل مچا دی۔ انہوں نے شمشیر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا کر دیا ان کی زبان پر یہ رجز تھے۔ ’’میں وہی ہوں جس سے میرے حبیب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے درختوں کے قریب پہاڑ کے دامن میں عہدوپیمان لیا تھا! میں کھڑے ہو کر آخری صف تک مقابلہ کرتا رہوں گا، اللہ اور اس کے رسول کی تلوار برابر چلاتا رہوں گا‘‘ آپ صفوں کو چیرتے ہوئے کفار کی گردنوں سے کھیلتے ہوئے آخری صف تک پہنچ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص کفار کو مسلمانوں کے خلاف لڑائی کے لئے ابھار رہا ہے۔ تیزی سے اس کی طرف لپکے تلوار لہرائی تو چیخ اتھی میں عورت ہوں۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ پوری جراءت و جواں مردی کے ساتھ لڑ رہے تھے، انہوں نے جنگ بدر میں طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا۔ طعیمہ کے بھتیجے جبیر بن مطعم نے چاہا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سے انتقال لے، اس نے اپنے غلام وحشی سے کہا تھا، اگر تم میرے چچا طعیمہ کے بدلہ میں حمزہ کو قتل کر دو تو تمہیں آزاد کر دوں