کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 70
غزوہ اُحد میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ نکلے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم انصاریوں کے ساتھ ایک کونہ میں تھے! ان میں طلحہ بن عبیداللہ بھی تھے۔ مشرکین نے انہیں اِس خیال سے گھیرا کہ وہ تھوڑے سے آدمی ہیں، لہٰذا انہیں مار دو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر ارشاد فرمایا! ان کی طرف سے کون جہاد کرے گا! طلحہ نے عرض کیا: میں! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے حال پر رہو۔ ایک انصاری شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ، تو پھر وہ لڑا یہاں تک کہ وہ شہید ہو گیا۔ بعد ازاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قوم کی طرف سے کون جہاد کرے گا۔ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہرا رہ، پھر ایک انصاری نے کہا کہ میں، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ، وہ لڑا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔ بعد ازاں حضور مسلسل فرماتے رہے اور ایک ایک مرد انصاری لڑائی کے لئے نکلتا چلا گیا! اور شہید ہوتا رہا، یہاں تک کہ فقط حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ باقی رہ گئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب جہاد کون کرے گا؟ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں، بعد ازاں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے بھی گیارہ اشخاص کی طرح جہاد فرمایا، حتیٰ کہ آپ کے دست مبارک پر ایک ضرب لگی اور ان کی انگلیاں کٹ گئیں، آپ نے کلمہ درد کہا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جب تجھے زخم لگا تھا تو اگر اس وقت بسم اللہ کہتا تو فرشتے تجھے اٹھا لیتے اور لوگ دیکھتے رہتے، بعد ازاں اللہ رب العزت نے مشرکوں کو پھیر دیا۔ (34) جب جنگ شدت اختیار کر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا اور یہ تلوار مجھ سے کون لیتا ہے؟ سب نے ہاتھ پھیلا دئیے۔ ہر ایک نے کہا میں لیتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کون اسے لے کر اس کا حق ادا کرے گا؟ یہ سن کر سب پیچھے ہٹ گئے (انہیں