کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 7
پیش لفظ نحمد و نصلي علي رسوله الكريم اما بعد لغت کی رُو سے جہاد کا مفہوم یہ ہے کہ قول و فعل کی جس قدر بھی قدرت حاصل ہو وہ استعمال کی جائے۔ کتاب البحر میں ’’اگر مشرق میں ایک خاتون قید کر لی جائے تو اسے چھڑانا اہل مغرب پر واجب ہو گا۔ تاآنکہ وہ اپنے قلعے میں لوٹ آئے یا ان کی حفاظت میں آ جائے۔‘‘ بلغۃ السالک کے مصنف فرماتے ہیں: ’’غلبہ اسلام کے لئے ہر سال جہاد کرنا فرض کفایہ ہے۔ اگر کچھ لوگ یہ کام کرتے رہیں تو باقی لوگ اس فریضے سے بری تصور ہوں گے۔‘‘ شریعت کی زبان میں جہاد کا مقصد یہ ہے کہ دشمنان دین کا زور توڑ دیا جائے۔ ان کی مرکزیت ختم کر دی جائے اور دین کی جڑیں مضبوط کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ مسلمانوں کے امیر کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ سال میں ایک دو بار اپنے دستے دارالحرب کی طرف بھیجے اور رعایا کا یہ فرض ہے کہ وہ اِس کے ساتھ پورا پورا تعاون کرے، اگر کچھ لوگ یہ فریضہ کماحقہ سرانجام دیتے رہیں تو باقی لوگوں کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر عام لوگوں کا شریک ہونا ناگزیر ہو جائے تو اس وقت یہ کام نماز کی طرح فرض عین بن جاتا ہے۔