کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 69
جنگ شدت سے جاری تھی۔ دوران جنگ بعض اوقات ایسے بھی آئے کہ ان میں رسول اللہ کے پاس سوائے سعد رضی اللہ عنہ اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے کوئی نہیں رہا۔ (30) کوئی لڑتا ہوا کہیں نکل گیا اور کوئی کہیں۔ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُحد کی لڑائی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر دو زرہیں تھیں، یہ پہنے ہوئے آپ ایک چٹان پر چڑھنے کے لئے اٹھے مگر چڑھ نہ سکے۔ آپ نے اپنے نیچے طلحہ کو بٹھایا اور ان پر چڑھ کر چٹان پر پہنچے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ طلحہ نے واجب کر لیا (یعنی اس کے لئے جنت واجب ہو گئی) (31) حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کے لئے اپنے ہاتھ کو سپر بنا لیا (ان تیروں سے جو تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آ رہے تھے ان کو اپنے ہاتھ پر روکتے رہے) حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ بہت بڑے تیر انداز تھے۔ کمان کو بڑی شدت کے ساتھ کھینچتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے ہاتھ سے دو کمانیں ٹوٹ گئیں۔ اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزرتا اور اس کے ترکش میں تیر موجود ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرماتے کہ ان تیروں کو ابوطلحہ کے لئے چھوڑ جاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گردن اونچی کر کے بار بار کفار کی طرف دیکھتے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ عرض کرتے: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونچے ہو کر نہ دیکھیں، ایسا نہ ہو کہ کوئی تیر آپ کو لگ جائے (میں تو چاہتا ہوں) ’’تیر میرے سینے پر لگے نہ کہ آپ کے سینے پر۔‘‘ (33)