کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 68
میں ایمان لایا، پھر وہ لڑتے لڑتے زخمی ہو گئے، اسے زخمی حالت میں ان کے گھر پہنچا دیا گیا۔ حضرت سعد بن معاذ ان کے پاس آئے، انہوں نے اس کی ہمشیرہ سے کہا: اپنے بھائی سے پوچھو تم کیوں لڑے، اپنی قوم کی غیرت سے یا غصے سے یا اللہ کے لئے غصہ کر کے لڑے، انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کے لئے غصہ کر کے لڑا تھا، پھر وہ فوت ہو گئے اور جنت میں گئے حالانکہ انہوں نے ایک نماز بھی نہیں پڑھی۔ (27) حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ ’’بدر کے روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی لڑائی میں شریک نہ ہو سکا، اگر اللہ نے آئندہ جنگ کا موقع دیا تو اللہ دیکھے گا کہ میں کیا کرتا ہوں‘‘ جنگ اُحد میں مسلمانوں میں انتشار کی سی کیفیت پیدا ہوئی تو کہنے لگے: ’’اے اللہ جو کچھ مسلمانوں نے کیا میں تجھ سے اس کی معافی چاہتا ہوں اور جو کچھ مشرکین نے کیا ہے اس سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔ پھر اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے۔ حضرت سعد بن معاذ سے ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے اے سعد رضی اللہ عنہ! تم کہاں جا رہے ہو مجھے تو اُحد پہاڑ کے سامنے جنت کی خوشبو آ رہی ہے۔ پھر وہ آگے بڑھے، لڑے اور شہید ہو گئے۔ (28) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوئے لڑ رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش سے تیر نکال کر حضرت سعد کو دئیے اور فرمایا: ’’اے سعد رضی اللہ عنہ! تم پر میرے ماں باپ قربان تیر چلائے جاؤ۔‘‘ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی تھے جو بڑی شدت کے ساتھ آپ کی طرف سے جنگ کر رہے تھے۔ وہ سفید کپڑوں میں ملبوس تھے میں نے ان کو نہ کبھی اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ ہی کبھی بعد میں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جبرئیل اور میکائیل تھے۔ (29)