کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 67
صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ وَا للّٰهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴿١٥٤﴾) (25) ’’اور ایک گروہ تھا (منافقوں کا) جو اپنی جانوں کے غم میں پڑے ہوئے تھے اور وہ اللہ پر ناحق بدگمانی کرتے تھے جاہلیت کی سی بدگمانی۔ وہ کہتے تھے کہ کیا اس کام میں ہمارے لئے بھی کچھ ہے؟ آپ فرما دیں۔ بےشک سب کام اللہ ہی کے لئے ہے۔ چھپاتے ہیں اپنے دلوں میں وہ چیز جو تم پر ظاہر نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کاش ہمارا کچھ اختیار ہوتا تو ہم یہاں قتل نہ کئے جاتے۔ فرما دیجئے اگر تم اپنے گھروں میں (بھی) ہوتے تو جن لوگوں کا قتل کیا جانا لکھا جا چکا تھا وہ اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے اور (یہ) اس لئے (ہوا) کہ اللہ تمہارے دلوں کی بات آزمائے اور (شیطانی وسوسوں سے) تمہارے دلوں کو صاف کر دے اور اللہ دلوں کی بات خوب جانتا ہے۔‘‘ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ وہ ہتھیار پہنے ہوئے تھا۔ اس نے کہا ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں لڑوں یا اسلام قبول کروں‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام لاؤ پھر لڑو۔ وہ شخص مسلمان ہو گیا۔ پھر وہ جنگ کرتا رہا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے عمل کم کیا اور اجر بہت پایا۔ (26) ابوہریرہ کہتے ہیں کہ عمرو بن اقیش نے لوگوں سے ایام جاہلیت کا سود لینا تھا، اس نے اسلام قبول کرنا ناپسند کیا حتیٰ کہ وہ لوگوں سے اپنا سود وصول کر لے کیونکہ اسلام لانے سے سود ساقط ہو جاتا ہے۔ پھر وہ جنگ کے دن آئے، پوچھا: ’’میرے چچا کے بیٹے کہاں ہیں‘‘ لوگوں نے کہا: ’’اُحد میں‘‘ پوچھا: ’’فلاں کہاں ہے‘‘ پھر اس نے کہا: ’’فلاں کہاں ہے‘‘ لوگوں نے کہا: ’’اُحد میں‘‘ انہوں نے زرہ پہنی اور اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے، پھر وہ ان کی طرف اُحد میں چل دئیے۔ جب مسلمانوں نے اسے اُحد کی طرف آتے ہوئے دیکھا کہا عمرو تم ہم سے دور رہو۔ اس نے کہا: