کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 66
علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جبیر کی ماتحتی میں متعین فرمایا تھا۔ (21) میدان جنگ سے پیٹھ پھیرنے والوں کے بارے میں ارشاد ربانی ہے: (إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ) (22) ’’جو لوگ تم میں سے (اُحد کے دن) جب کہ (مومنوں اور کافروں کی) دو جماعتیں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئیں (جنگ سے) بھاگ گئے۔ تو ان کے بعض افعال کے سبب شیطان نے ان کو پھسلا دیا۔‘‘ یہ لوگ بھاگے ہی چلے جا رہے تھے، مڑ کر نہیں دیکھتے تھے حالانکہ رسولِ خدا میدان جنگ میں کھڑے انہیں آوازیں دے رہے تھے، صحابہ پر دہشت طاری تھی انہوں نے کچھ بھی نہ سنا اس لئے کہ ان پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ قرآن حکیم میں ہے: (إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ) (23) ’’جب تم لوگ دور بھاگے جاتے تھے اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول اللہ تم کو تمہارے پیچھے کھڑے بلا رہے تھے کہ خدا نے تم کو غم پر غم پہنچایا تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی یا جو مصیبت تم پر واقع ہوئی اس سے کم اندوہناک نہ ہو۔‘‘ اس افراتفری کے عالم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف بارہ آدمی رہ گئے۔ (24) ایک گروہ کے خیالات اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمائے ہیں: (وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِا للّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ۖ يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِن شَيْءٍ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلّٰـهِ يُخْفُونَ فِي أَنفُسِهِم مَّا لَا يُبْدُونَ لَكَ ۖ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا هَاهُنَاۗ قُل لَّوْ كُنتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمْ ۖ وَلِيَبْتَلِيَ ا للّٰهُ مَا فِ