کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 65
(مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا) (15) ’’تم میں سے کوئی دنیا کا ارادہ کرتا تھا۔‘‘ بعض لوگوں نے نافرمانی نہیں کی اور نہ ہی وہ دنیا کی طلب میں مبتلا ہوئے بلکہ مورچوں میں ڈٹے رہے اور آخرت کی طلب میں لگے رہے۔ (وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ) (16) ’’اور کوئی تم میں آخرت چاہتا تھا۔‘‘ بہرحال طالبان دنیا کی اس نافرمانی کا وبال سب پر پڑا۔ اللہ نے بطور سزا کے مسلمانوں کو مصیبت میں مبتلا کر دیا۔ ’’لِيَبْتَلِيَكُمْ‘‘ (17) ’’تاکہ وہ تمہاری آزمائش کرے‘‘ کافروں کی طرف سے مسلمانوں کا منہ پھیر دیا۔ ’’ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ ‘‘ (18) ’’پھر اللہ نے تمہارا منہ ان سے پھیر دیا۔‘‘ اس افراتفری میں مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچا۔ سب سے پہلے حضرت جابر کے والد شہید ہو گئے۔ (19) جب مسلمان کفار کی شکست خوردہ فوج کا تعاقب کر رہے تھے تو ابلیس لعین چلا چلا کر مسلمانوں سے کہنے لگا: ’’اے اللہ کے بندو پیچھے کی خبر تو لو‘‘ مسلمان یہ سمجھے کہ کفار نے پیچھے سے حملہ کر دیا ہے، آگے والے پیچھے کی طرف مڑے اور اپنے ہی آدمیوں سے لڑنے لگے، آپس میں گتھم گتھا ہو گئے اور ایک دوسرے کو پہچاننا مشکل ہو گیا۔ حضرت یمان رضی اللہ عنہ پر مسلمان ٹوٹ پڑے، ان کے لڑکے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بہت چلائے کہ یہ تو میرے والد ہیں لیکن کسی نے ایک نہ سنی اور حضرت یمان کو شہید کر دیا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ تمہیں معاف کرے۔ (20) اس پریشانی کے عالم میں کچھ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ ان کی اپنی غلطی کے سبب شیطان نے انہیں کمزور کر دیا اور وہ بزدل ہوئے۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا پریشانی اور افراتفری کا عالم ہو سکتا ہے کہ جب اپنوں ہی کی تلواریں ایک دوسرے کا سر قلم کرنا شروع کر دیں ایسے وقت میں یقیناً ہر شخص اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے گا۔ یہ بھاگنے والے اسی پیدل دستے کے افراد تھے جن کو رسول اللہ صلی اللہ