کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 64
(وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ ا للّٰهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم) (11) ’’اور بےشک اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچا کر دیا جب تم اس کے حکم سے انہیں قتل کرتے تھے۔‘‘ (مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ) (12) ’’اس کے بعد اللہ تمہیں دکھا چکا تھا تمہاری پسندیدہ چیز۔‘‘ کفار شکست کھا کر بھاگنے لگے۔ ان کی عورتوں کی حالت نہایت ناگفتہ بہ تھی۔ پنڈلیوں سے دامن اٹھائے تیزی سے پہاڑ کی طرف بھاگ رہی تھیں اور پنڈلیاں کھل جانے کی وجہ سے ان کی پازیبیں نظر آ رہی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن جبیر کے دستہ کے لوگوں نے جب یہ دیکھا تو کہنا شروع کر دیا ’’مال غنیمت، مال غنیمت‘‘ (یہ کہہ کر وہ مال غنیمت لوٹنے کے لئے جانے لگے) حضرت عبداللہ بن جبیر نے انہیں بہت سمجھایا کہ (ایسا نہ کرو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عہد لیا ہے کہ یہاں سے نہ ہلنا، اور کیا تم بھول گئے ہو کہ تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا تھا؟ انہوں نے کہا ہم تو ضرور مال غنیمت لوٹیں گے۔ غرض یہ کہ انہوں نے عبداللہ بن جبیر کا کہنا نہ مانا اور مال غنیمت لوٹنے میں مصروف ہو گئے۔ (13) صحابہ کرام نے کمزوری کا مظاہرہ کیا اور حکم رسول کی تعمیل میں اختلاف کیا اور بالآخر نافرمانی کر بیٹھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم) (14) ’’یہاں تک کہ تم نے بزدلی دکھائی (اور اپنے) کام میں اختلاف کیا اور تم نے نافرمانی کی۔‘‘ ان میں بعض دنیا کی طلب میں گرفتار ہو گئے اور مال غنیمت لوٹنے میں مصروف ہو گئے۔