کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 63
کے شمالی مضافات میں کوئی چار یا پانچ میل کے رقبہ میں خط مستقیم مشرق سے مغرب کی طرف پھیلا ہوا ہے اس کے اطراف چکر لگایا جائے تو پوری مسافت پانچ میل کی بنتی ہے۔ مدینہ سے دیکھو تو یہ پہاڑ سرخ رنگ کا نظر آتا ہے۔ جس پر کوئی سبزہ وغیرہ نہیں دکھائی دیتا۔ قرب و جوار کے پہاڑی سلسلوں میں یہ الگ تھلگ پہاڑ ہے۔ اس کا سلسلہ ہائے کوہ میں منفرد ہونا اس نام کی وجہ تسمیہ ہے۔ پہاڑ پر کئی مقامات ایسے ہیں جہاں بارش کا پانی قدرتی طور پر حوض کی طرح جمع ہو جاتا ہے۔ احد کے جنوبی سمت میں بیچ میں ایک نعل نما حصہ ہے۔ اس کی زمین اونچی ہے۔ دامن جبل کے میدان کے بعد وادی قناۃ ہے۔ وادی قناۃ میں بہنے والا دریا عاقول کی قدرتی جھیل کو لبریز کرتا ہوا ینسوع کے قریب بحر احمر میں جا گرتا ہے۔ بارش میں اس دریا کا بہاؤ مشرق سے مغرب کی سمت ہوتا ہے۔ وادی قناۃ کے اس طرف ایک چھوٹی سی پہاڑی جبل العینین (دو چشموں کی پہاڑی) واقع ہے۔ چونکہ اس کے شمال میں دو چشمے تھے اس لئے یہ نام پڑ گیا۔ اسی مقام پر لڑائی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس تیر اندازوں کو متعین فرما دیا تھا۔ جب سے اس کا نام ’’جبل الرماۃ‘‘ یعنی تیر اندازوں کی پہاڑی پڑ گیا۔ جب دونوں فوجیں میدان احد میں اتر آئیں اور ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو گئیں تو کفار کی طرف سے سباع نامی ایک شخص مقابلہ کرنے کے لئے نکلا۔ اس نے کہا مجھ سے کون مقابلہ کرے گا؟ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مقابلہ کے لئے نکلے اور کہا ’’اے سباع! اے ام انمار کے بیٹے (جو عورتوں کے ختنے کیا کرتی تھی) کیا تو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتا ہے؟‘‘ یہ کہہ کر اس پر حملہ کر دیا اور گزشتہ کل کی طرح اسے ختم کر دیا۔ (10) باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی۔ مسلمانوں نے اللہ کے وعدہ کے مطابق کفار کو دھڑا دھڑ قتل کرنا شروع کر دیا۔