کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 62
جو منافقین مدینہ چھوڑ کر چلے گئے ان کے متعلق صحابہ کرام میں دو گروہ ہو گئے۔ ان میں سے ایک کہتا تھا کہ ہم منافقین سے جنگ کریں گے، دوسرا کہتا تھا کہ ہم ان سے جنگ نہیں کریں گے۔ اللہ نے بصورت خفگی ارشاد فرمایا: (فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَا للّٰهُ أَرْكَسَهُم بِمَا كَسَبُوا ۚ) (7) ’’(اے مومنو!) تو کیا سبب ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو حالانکہ اللہ نے ان کو ان کے کرتوتوں کے سبب اوندھا کر دیا ہے۔‘‘ جنگ کی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر اندازوں کا ایک پیدل دستہ ایک جگہ متعین فرمایا۔ یہ دستہ پچاس تیر اندازوں پر مشتمل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دستہ پر حضرت عبداللہ بن جبیر کو امیر بنایا۔ ان لوگوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم یہاں سے نہ ہٹنا اگرچہ تم یہ دیکھو کہ ہماری فتح ہو گئی ہے اور ہم نے دشمن کو پامال کر دیا ہے۔ جب تک میں تم کو خود نہ بلواؤں اور اگر تم دیکھو کہ دشمن ہم پر غالب آ گئے ہیں اور پرندے ہمارے جسموں کو نوچ کر لے جا رہے ہیں پھر بھی تم یہاں سے نہ ہٹنا اور ہماری مدد کے لئے نہ آنا حتیٰ کہ میں خود تم کو نہ بلواؤں۔ (8) حضرت براء کا بیان ہے اللہ نے کفار کو شکست فاش دی میں نے مشرکین کی عورتوں کو دیکھا کہ وہ میدان جنگ سے بھاگنے کے لئے پہاڑوں پر چڑھنے لگیں۔ عبداللہ بن جبیر سے ان کے تیر انداز ساتھیوں نے کہا عبداللہ تمہارے اصحاب دشمنوں پر غالب آ گئے ہیں۔ اب تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو آگے بڑھ کر مال غنیمت لے لو۔ عبداللہ بن جبیر نے کہا تم بھول گئے ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کہا تھا، انہوں نے کہا خدا کی قسم ہم تو جائیں گے اور مال غنیمت کا مال لیں گے وہ گئے اللہ نے ان کے منہ پھیر دئیے اور ان کو شکست ہوئی۔ (9) اُحد پہاڑ مسجد نبوی سے کوئی ساڑھے تین میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ مدینہ