کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 61
مُنزَلِينَ ﴿١٢٤﴾ بَلَىٰ ۚ إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَـٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ ﴿١٢٥﴾ وَمَا جَعَلَهُ ا للّٰهُ إِلَّا بُشْرَىٰ لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُم بِهِ ۗ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ ا للّٰهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ﴿١٢٦﴾) (4) ’’جب تم مومنوں سے یہ کہہ (کر ان کا دل بڑھا) رہے تھے کہ کیا یہ کافی نہیں کہ پروردگار تین ہزار فرشتے نازل کر کے تمہیں مدد دے۔ ہاں اگر تم دل کو مضبوط رکھو اور (اللہ سے) ڈرتے رہو اور کافر تم پر جوش کے ساتھ دفعتاً حملہ کر دیں تو پروردگار پانچ ہزار فرشتے جن پر نشان ہوں گے تمہاری مدد کو بھیجے گا۔ اور اس مدد کو تو اللہ تمہارے لئے (ذریعہ) بشارت بنایا۔ یعنی اس لئے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو۔ ورنہ مدد تو اللہ ہی کی ہے جو غالب (اور) حکم والا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے جیسا کہ قرآن میں ہے: (وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ) (5) ’’اور (اس وقت کو یاد کرو) جب تم صبح کو اپنے گھر سے روانہ ہو کر ایمان والوں کو لڑائی کے لئے مورچوں پر (موقع بہ موقع) متعین کرنے لگے۔‘‘ جب آپ اُحد کے میدان میں پہنچے تو آپ کے ساتھیوں میں سے کچھ (جو منافق تھے) مدینہ واپس چلے آئے (انہوں نے جنگ میں شرکت نہیں کی بلکہ مومنین کی ہمت شکنی کا سبب بے) مومنوں کے دو قبیلے بنو سلمہ اور بنو حارثہ بزدلی اور پست ہمتی کا شکار ہوئے۔ قرآن میں ہے: (إِذْ هَمَّت طَّائِفَتَانِ مِنكُمْ أَن تَفْشَلَا وَا للّٰهُ وَلِيُّهُمَا ۗ وَعَلَى ا للّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١٢٢﴾) (6) ’’اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے جی چھوڑ دینا چاہا مگر اللہ ان کا مددگار تھا اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔‘‘