کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 60
ٹھہرایا بلکہ خود بھی اسلامی قافلے کا ایک فرد بن گیا، اوس و خزرج جو عرصہ دراز سے یہودیوں کی سازشوں کا شکار تھے، امن و سلامتی کے متلاشی تھے، انہوں نے مسلمانوں کو اپنے ہاں مستقل طور پر آباد کیا اور مدینہ مسلمانوں کے لئے ایک اسلامی ریاست کی حیثیت اختیار کر گیا۔ مسلمان یہاں پھل پھول رہے تھے۔ اہل مکہ اور سرداران قریش کے لئے یہ صورت حال بےحد پریشان کن اور راتوں کی نیند اڑانے والی تھی۔ سینے پر سانپ لوٹ رہا تھا، آہوں میں نفرت کا کالا دھواں اور انتقال کی آگ روشن تھی، مکہ کا ہر فرد محسوس کر رہا تھا کہ اگر جلد از جلد مسلمانوں کو نیچا نہ دکھایا گیا تو پھر قریش کی رہی سہی عزت اور وقار بھی خاک میں مل جائے گا۔ مشرکین مکہ نے پورے جوش و خروش کے ساتھ مدینہ پر حملہ کر دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ) (1) ’’اور کافر تم پر جوش کے ساتھ حملہ کر دیں گے۔‘‘ حملے کا مقصد مسلمانوں سے جنگ بدر کا بدلہ لینا تھا جیسا کہ ابوسفیان کے الفاظ سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ ’’آج بدر کا بدلہ ہے‘‘ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خوشخبری و تسلی دی اور ان کی ہمت افزائی فرمائی۔ قرآن حکیم میں ہے: (وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ ا للّٰهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ ۖ فَاتَّقُوا ا للّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿١٢٣﴾) (3) ’’اور اللہ نے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تم بے سروسامان تھے۔ پس اللہ سے ڈرو (اور ان احسانوں کو یاد کرو) تاکہ شکر کرو۔‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی محاذ جنگ پر مسلمانوں کو پوری طرح اطمینان دلایا۔ قرآن حکیم میں ہے: (إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَن يَكْفِيَكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَبُّكُم بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ