کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 59
جنگ اُحد بدر کی شکست نے اہل مکہ کو آتش زیرپا کر دیا تھا۔ کوئی ایسا گھرانہ باقی نہ رہا تھا جہاں ماتم بپا نہ ہو۔ کسی کا والد، کسی کا جگر گوشہ، کسی کا بھائی یا کوئی نہ کوئی رشتہ دار ضرور بدر کی بھینٹ چڑھ چکا تھا، جو سردار گرفتار ہوئے ذلت سے دوچار تھے ان کا سر بہا اڑھائی لاکھ درہم دینا پڑا۔ تازہ ترین واقعہ یوں رونما ہوا کہ کفار مکہ نے عراق کے راستے تجارت بحال کرنا چاہی تو وہاں بھی مسلمانوں نے چھاپہ مارا اور ایک لاکھ درہم کی مالیت کی چاندی ہاتھ سے جاتی رہی نہ یہ راستہ محفوظ نہ وہ راستہ۔ لے دے کر اب تجارت حبشہ اور یمن کے راستے باقی رہ گئی تھی۔ حبشہ سے تجارت میں شام کے مقابلے میں بہت کم منافع تھا۔ قریش کی سیادت ہر حیثیت سے متاثر ہو رہی تھی۔ دینی اعتبار سے یوں کہ عرب کی ایک بڑی تعداد بت پرستی سے برگشتہ ہونے لگی۔ یہ کعبہ کے متولیوں کی دینی برتری پر ایک ضرب کاری تھی، معاشرتی نقطہ نظر سے اسلام نے غلام کو آزاد کر کے مساوی درجہ دے کر اخوت کی لڑی میں پرو دیا تھا، خونی رشتے کاٹ کر دینی رشتہ مستحکم کر دیا۔ کفار کی عسکری برتری اور افرادی قوت کا بھرم میدان بدر میں کھل چکا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کیسے کیسے سورما مارے گئے۔ نہ اسلحہ کی برتری کام آئی اور نہ ہی کثرت تعداد، یہ سب عناصر مل کر قریش کے سیاسی اثرورسوخ کو ٹھیس پہنچا رہے تھے۔ حبشہ کے بادشاہ نے ان کی بات نہ سنی اور مسلمانوں کو اپنے ہاں باعزت طور پر