کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 55
دے وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور رشتے داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لئے ہے تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔ جو کچھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ۔ اللہ سے ڈرو اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ (نیز وہ مال) ان غریب مہاجرین کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے نکال باہر کئے گئے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت پر کمربستہ رہتے ہیں۔ یہی راست باز لوگ ہیں۔ (اور وہ ان لوگوں کے لئے بھی ہے) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دارالہجرت میں مقیم تھے۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے ان کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے۔ (وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠﴾) (20) (اور وہ ان لوگوں کے لئے بھی ہے) جو ان اگلوں کے بعد آئے ہیں، جو کہتے ہیں کہ ہم ’’اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لئے کوئی بغض نہ رکھ، اے ہمارے رب، تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔‘‘ یہ مال جو بطور فی (یعنی بغیر جنگ) کے حاصل ہوا تھا، اس میں سے کچھ مال خالصتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھا۔ پھر بھی اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بہت کچھ دیا۔ باقی جو بچتا اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کو پورے سال