کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 53
’’اے بنو قینقاع! تم مدینہ چھوڑ دو۔ گھریلو اشیاء صرف جس قدر لے جا سکتے ہو اٹھا لے جاؤ، البتہ آلات حرب ساتھ نہیں لے جا سکتے۔‘‘ انہوں نے گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے تک اکھیڑ لئے۔ حضرت عبادہ بن صامت نے انہیں مدینہ سے باہر ذباب نامی پہاڑ تک پہنچایا اور وہ شام کی طرف چل دئیے۔ ایک مرتبہ قوم یہود سرزمین حجاز میں مدینہ اور خیبر کے گلی کوچے میں ذلیل و رسوا ہونے۔ ان کے گھر بار اجڑ گئے عزتوں اور رفعتوں نے ان کے گھروں سے کوچ کر لیا۔ رحمتوں اور عزتوں نے مسلمانوں کے گھروں میں ڈیرے ڈال دئیے۔ یہ سب کچھ جہاد کی برکتوں کے موجب تھا۔ مسلمانو! آج تمہیں پہاڑ پکارتے ہیں، بر و بحر دعوت عمل دے رہے ہیں، دیبل کی بندرگاہ کسی محمد بن قاسم کی تلاش میں ہے۔ اور سمندروں کی موجیں کسی طارق بن زیاد کی کھوج میں ہیں۔ کشمیری عوام، بوسنیا، اور فلپائن کے باشندے ضیاء الحق کے تدبر کے متلاشی ہیں۔ کلکتہ اور دہلی کے بازار حسن میں بیٹھنے والیاں وہی مسلمان بیٹیاں جنہیں تم ہندوستان چھوڑ آئے تھے۔ مسلمانو! وہ تمہاری ہی بیٹیاں ہیں تم ذرا انہیں پہچاننے کی کوشش تو کرو وہ تمہارے ہی خون ہیں ان کی آہوں اور چیخوں سے تمہارے دل کیوں نہیں پھٹتے؟ مسلمانو! اٹھا کفار، یہود و ہنود کی قوت کو پاش پاش کر دو اگر تم آج نہ اٹھے تو تم دنیا سے مٹ جاؤ گے۔ مسجد اقصیٰ اور بابری مسجد تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ جہاد کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ تم دنیا و آخرت کی فلاح پا جاؤ۔ قرآن کی روشنی میں دیکھئے جنگ کے کیا نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ (وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ ﴿٥﴾) (15) ’’اور یہ کہ وہ نافرمانوں کو رسوا کر لے۔‘‘ (أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا) (16)