کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 50
بچا لیں گے۔ مسلمانوں نے بحکم الٰہی جنگی نقطہ نظر سے کچھ کھجوروں کے درخت کاٹ ڈالے اور کچھ نذر آتش کر دئیے اور کچھ کو ویسے ہی چھوڑ دیا۔ (9) (مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ ا للّٰهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ ﴿٥﴾) (10) ’’(مومنو) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا اور مقصود یہ تھا کہ وہ نافرمانوں کو رسوا کرے۔‘‘ معلوم ہوتا ہے پیغمبر خدا میدان جنگ ہو یا حالت امن، اس میں اپنی من مانی نہیں کیا کرتے تھے، بلکہ وہی کام کرتے جس کا آپ کو اللہ کی جانب سے حکم ہوتا تھا۔ جب خدائی فوج نے درختوں کو نذر آتش کیا تو مداح رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسان بن ثابت کی زبان سے بے ساختہ یہ شعر نکلا۔ وَهَانَ علَى سَرَاةِ بَنِي لُؤَيٍّ حَرِيقٌ بالبُوَيْرَةِ مُسْتَطِيرُ سرداران نبی لوی (یعنی قریش) کے لئے باعث شرم ہے کہ بویرہ میں آگ لگ رہی ہے جس کی چنگاریاں دور دور تک جا رہی ہیں (لیکن اس کے باوجود قریش اپنے دوستوں کی مدد نہیں کرتے) قریش کی طرف سے ابو سفیان بن حارث نے جواب میں دو شعر کہے: أَدَامَ اللّٰه ذَلِكَ مِنْ صَنِيعٍ وَحَرَّقَ فِي نَوَاحِيهَا السَّعِيرُ سَتَعْلَمُ أَيُّنَا مِنْهَا بِنُزْهٍ وَتَعْلَمُ أَيُّ أَرْضَيْنَا تَضِيرُ