کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 49
’’(مسلمانو) تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں خدا سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ اس لئے کہ یہ سمجھ نہیں رکھتے۔ یہ سب جمع ہو کر بھی تم سے نہیں لڑ سکتے، مگر بستیوں کے قلعوں میں (پناہ لے کر) یا دیواروں کی اوٹ میں (مستور ہو کر) ان میں آپس میں شدید عداوت ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ یہ اکٹھے اور ایک جان ہیں مگر ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں۔ یہ اس لئے کہ ان میں عقل نہیں (عقل ہوتی؟ تو آپس میں پھوٹ نہ ہوتی) اللہ نے مقابلہ سے قبل ہی مسلمانوں کو بنو نضیر سے ہونے والی جنگ اور اس کے نتائج کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔ کہ تم فکر مت کرو فتح و کامرانی تمہاری قدم بوسی کرے گی اور یہودیوں کے وقار کو خاک میں ملا دیا جائے اور تمہیں ابدی اور دائمی عزت مل جائے گی۔ ارشاد ربانی ہے: (كَمَثَلِ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَرِيبًا ۖ ذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٥﴾) (5) ’’ان کا حال ان لوگوں کا سا ہے جو ان سے کچھ ہی پیشتر اپنے کاموں کی سزا کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ اور (ابھی) ان کے لئے دکھ دینے والا عذاب (تیار ہے)‘‘ جب یہودیوں اور منافقوں کی سازشیں پایہ تکمیل تک پہنچ گئیں تو یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر نے جنگ کی ابتداء کی (6) یہودیوں کے اس قبیلہ کے نام پر ہی اس جنگ کا نام جنگ بنو نضیر رکھا گیا۔ یہودیوں کے قبیلے بنو قینقاع اور بنو قریظہ اس جنگ میں شریک تھے۔ (7) اللہ رب العزت نے تو پہلے ہی بتلا دیا تھا کہ یہودی قلعہ بند ہوں گے۔ منافقین نے انہیں کسی قسم کی بھی امداد فراہم نہ کی۔ (وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللّٰهِ ) (8) ’’اور وہ لوگ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ ان کے قلعے ان کو خدا (کے عذاب) سے