کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 47
جنگ بنو نضیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یثرب آمد کے بعد یہود مدینہ حسد کی آگ میں جلنے لگے، آپ اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ ارشاد ربانی ہے: (ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا ا للّٰهَ وَرَسُولَهُ ۖ وَمَن يُشَاقِّ ا للّٰهَ فَإِنَّ ا للّٰهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٤﴾) (1) ’’(یہودیوں پر جنگ کی آفت اس لئے نازل ہوئی کہ) یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کیا کرتے تھے۔ اور جو شخص بھی اللہ کی (یعنی اللہ کے دین کی) مخالفت کرے تو (وہ سمجھ لے) کہ بےشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘ حکم عدول قوموں کی سزا یقیناً اللہ کا عذاب ہوتا ہے، ہر قوم جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف برسرپیکار ہوئی وہ صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ گئی۔ جو قوم بھی اللہ کے دین کے غالب کرنے والوں کو مغلوب کرنے کی کوشش کرتی ہے قدرت انہیں عذاب میں مبتلا کر دیتی ہے۔ منافقین، یہود مدینہ کی سازشوں میں برابر کے شریک تھے بلکہ یہودیوں کو مسلمانوں کے خلاف برانگیختہ کرنے والے دراصل یہی منافقین ہی تھے۔ جنہوں نے بظاہر تو اسلام قبول کر لیا اور حلقہ اسلام میں داخل ہو گئے اور حقیقتاً ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔