کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 40
مجاہدین میں تقسیم کر دیتے۔ ایک شخص اس تقسیم کے بعد یعنی پانچواں حصہ نکالنے کے بعد ایک بال کی مہار لایا اور کہا یا رسول اللہ یہ مال غنیمت میں سے ہے، آپ نے فرمایا کیا تو نے بلال کی آواز سن لی تھی، اس نے تین بار اعتراف کیا کہ ہاں میں نے بلال کی پکار سن لی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا رکاوٹ تھی؟ اس نے معذرت کی کہ مجھ سے تاخیر ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسی طرح رہو قیامت کے دن اس مہار کو لاؤ گے اور میں تم سے قبول نہ کروں گا۔ (63) ایک مرتبہ حضرت سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! کیا فلاں شخص شہیدا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرگز نہیں۔ میں نے اس کو ایک عبا کی (چوری کی) وجہ سے دوزخ میں دیکھا ہے جسے اس نے مال غنیمت میں سے چرایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عمر رضی اللہ عنہ! اٹھ لوگوں میں یہ اعلان کر دو کہ جنگ میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔ ان کے سوا کوئی (چور اچکا خائن) داخل نہ ہو گا۔‘‘ آپ نے تین بار ایسا ہی فرمایا، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اعلان کر دیا۔ (64) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت تقسیم فرمایا تو اس میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک اونٹنی عطا فرمائی۔ پھر ان کو ایک اونٹنی خمس میں سے مزید عنایت فرمائی۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ سے شادی کا ارادہ کیا تو بنو قینقاع کے ایک سنار سے وعدہ لیا کہ وہ ان کے ساتھ (جنگل) جائے تاکہ وہ اذخر گھاس لا کر سناروں کے ہاتھ فروخت کریں اور اس رقم سے شادی کے بعد ولیمہ کریں۔ وہ اپنی اونٹنیوں کے لئے ہودہ، گھاس کا ظرف اور رسیاں جمع کرنے میں مشغول ہو گئے اور اونٹنیوں کو ایک انصاری کے حجرہ کی ایک جانب باندھ دیا۔ جب سارا سامان جمع کر کے اونٹنیوں کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے کوہان کاٹ لئے گئے ہیں اور ان کی کلیجیاں نکال لی گئی ہیں۔ یہ دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ بے اختیار