کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 38
گا جو ان سے پہلے مفسدوں کا انجام کر چکا ہوں۔ زمین پر قانون خداوندی کا راج نہ تھا اور نہ ہی حکومت الٰہیہ کا قیام بلکہ غیراللہ کا قانون ہی جاری و ساری تھا۔ زمین فتنہ و فسادات کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ ان فتنوں کی سرکوبی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے ارشاد ہوتا ہے: (وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّٰهِ ۚ فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ ا للّٰهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴿٣٩﴾ وَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوا أَنَّ ا للّٰهَ مَوْلَاكُمْ ۚ نِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ ﴿٤٠﴾) (60) ’’اور کافروں سے برابر لڑتے رہو جب تک کہ فتنہ (یعنی غیراللہ کا قانون) ختم نہ ہو جائے اور (ہر جگہ) اللہ اکیلے ہی کے قوانین نافذ ہو جائیں، ہاں اگر وہ باز آ جائیں تو اللہ ان کے اعمال کو دیکھ رہا ہے اور اگر وہ منہ موڑ لیں تو جان لو کہ اللہ تمہارا حامی ہے اور وہ اچھا حامی ہے اور اچھا مددگار ہے۔‘‘ْ اس آیت میں کفار سے مسلسل جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکر کفر زمین پر کبھی بھی امن پسند نہیں کرتا وہ ہمیشہ سے زمین پر گھناؤنی سازشیں کرتا رہا ہے۔ مال غنیمت کو اگرچہ اللہ نے حلال کر دیا تھا لیکن اس سلسلہ میں تفصیلی احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ میدان جنگ سے بھاگنے والوں کا تعاقب کیا گیا تو پیچھا چھڑانے کی خاطر وہ لوگ زرہیں پھینکتے جاتے تھے۔ جسے مسلمانوں نے اٹھا لیا۔ کچھ مال تجارت بھی ساتھ تھا جو دباغت شدہ کھالوں کے بستروں پر مشتمل تھا۔ جنگ بدر میں بہت سا مال غنیمت ہاتھ آیا تھا۔ اس میں ایک تلوار بھی تھی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے وہ تلوار لے لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ’’یہ تلوار مجھے عنایت فرما دیجیئے آپ کو میرے حالات کا اچھی طرح علم ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے وہیں رکھ دو۔ جب وہ اسے رکھنے لگے تو