کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 37
سے) جو (فدیہ کا مال) تم نے لیا اس میں ضرور تمہیں بڑا عذاب پہنچتا۔ اور جو مال غنیمت کی صورت میں ملا ہے اسے تم کھا سکتے ہو۔ وہ حلال اور پاکیزہ ہے البتہ اللہ سے ڈرتے رہو، بےشک اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے (یہ اس کی مہربانی ہی ہے کہ تمہاری دنیا طلبی کو معاف کر دیا)‘‘ (58) جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح یقینی تھی، اور کفار کی شکست بھی لازمی امر تھا، اور ذلت ناک عذاب ان کا مقدر بن چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی امداد فرمائی اور کافروں کو شکست سے دوچار کیا، ان میں سے ہر جماعت کو وہی کچھ ملا جس کی وہ مستحق تھی۔ اللہ نے کفار کو مخاطب کر کے فرمایا: (إِن تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ ۖ وَإِن تَنتَهُوا فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَعُودُوا نَعُدْ وَلَن تُغْنِيَ عَنكُمْ فِئَتُكُمْ شَيْئًا وَلَوْ كَثُرَتْ وَأَنَّ ا للّٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٩﴾) (59) ’’(اے کافرو) اگر تم فیصلہ چاہتے ہو تو فیصلہ تمہارے پاس آ چکا اور اگر باز آ جاؤ تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم (شرارت کی طرف) دوڑے تو ہم پھر تمہیں سزا دیں گے اور تمہارا گروہ تمہارے کچھ کام نہ آئے گا اگرچہ وہ بہت ہو اور یہ کہ اللہ ایمان والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ کفار کو اپنی کثرت کا گھمنڈ تھا، انہیں یہ احساس ہر وقت بےقرار رکھتا تھا کہ ہماری کثرت ہے۔ ہمارے اور ہمارے ہمنواؤں کے پاس مادی وسائل ہیں اور آلات حرب بھی وافر ہیں۔ کفار میں کچھ لوگ مسلمانوں کی فتح کے منتظر تھے کہ اگر مسلمانوں کو عسکری طور پر کامیابی ہوئی تو ہم ان کے ساتھ مل جائیں گے۔ اللہ رب العزت نے ان سے فرمایا اگر تم مسلمانوں کی فتح کے منتظر تھے تو وہ وقت آ گیا انہیں فتح عطا فرما دی گئی ہے۔ اب تمہیں اسلام قبول کر لینا چاہیے۔ فرمایا اے نبی! ان باغیوں سے کہہ دو کہ تم ان شرارتوں اور فساد فی الارض سے رک جاؤ۔ جو کچھ بھی ان سے ہو چکا ہے وہ معاف کر دوں گا وگرنہ ان کا حشر بھی وہی کروں