کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 36
سے ایک شخص کو مکہ بھیجا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ زینب کی آمد تک تم بطن یا جج (ایک مقدم ہے مکے کے پاس) ٹھہرے رہنا۔ (56) مشورہ (اور قیدیوں کی) رہائی کے دوسرے روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیٹھے رو رہے ہیں۔ انہوں نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کیوں رو رہے ہیں۔ اگر مجھے بھی رونا آیا تو میں روؤں گا ورنہ آپ دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت ہی بنا لوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اس واقعہ کی وجہ سے رو رہا ہوں جو تمہارے ساتھیوں سے فدیہ لینے کی وجہ سے پیش آیا‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کی طرف جو آپ کے قریب ہی تھا، اشارہ کر کے فرمایا۔ ’’میرے سامنے ان لوگوں کا عذاب لایا گیا (جنہوں نے فدیہ لے کر چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا) وہ عذاب اس درخت سے بھی قریب تھا‘‘ اس موقع پر درج ذیل آیات نازل ہوئیں: (مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَا للّٰهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَا للّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٦٧﴾ لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللّٰه سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٦٨﴾ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا ا للّٰهَ ۚ إِنَّ ا للّٰهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٦٩﴾) (57) ’’کسی نبی کی شان کے لائق نہیں کہ اس کے لئے قیدی ہوں یہاں تک کہ وہ زمین میں (کافروں کا) اچھی طرح خون بہا لے تم (اپنے لئے) دنیا کا مال چاہتے ہو اور اللہ (تمہارے لئے) آخرت کا ارادہ فرماتا ہے اور اللہ بڑا غالب بہت حکمت والا ہے۔‘‘ اگر پہلے سے (معافی کا حکم) اللہ کی طرف سے لکھا ہوا نہ ہوتا تو (کافروں