کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 35
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے پسند آئی۔ حضرت عمر کی رائے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں کیا۔ (52) اسی موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور وہ ان پلیدوں کے متعلق سفارش کرتا تو میں اس کی خاطر سب کو چھوڑ دیتا۔‘‘ (53) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے لوگوں کا فدیہ فی آدمی چار سو درہم مقرر کئے تھے۔ (54) الغرض قیدیوں سے فدیہ لیا گیا، ان میں عباس رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ جب فدیہ وصول کیا جا رہا تھا تو اس موقع پر انصار نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ’’آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم اپنے بھانجے عباس رضی اللہ عنہ کا فدیہ معاف کر دیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انہیں ایک درہم بھی نہ چھوڑا جائے۔‘‘ (55) جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے فدیے بھیجے تو حضرت زینب بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے خاوند ابو العاص کی آزادی کے لئے کچھ مال بھیجا اور اسی مال میں اپنا ایک ہار بھی بھیجا جو حضرت خدیجہ کا تھا، انہوں نے یہ ہار حضرت زینب کو شادی کے موقع پر بطور تحفہ دیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب رسولِ خدا نے اس ہار کو دیکھا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی حالت غربت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بھر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رقت طاری ہو گئی اور مصاحبت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یاد آئی، اس لئے کہ وہ ہار ان کے گلے میں رہتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا اگر تم مناسب جانو تو زینب کی خاطر اس قیدی کو چھوڑ دوں اور وہ مال پھر واپس کر دوں جو زینب نے اس کی رہائی کے لئے بھیجا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ زینب کا مال بھی واپس کر دیں اور ابو العاص کو بھی چھوڑ دیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ ابو العاص کو چھوڑتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے عہد لیا کہ زینب رضی اللہ عنہا کو میرے پاس آنے سے مت روکنا چنانچہ زینب کو مکہ سے لانے کے لئے زید بن حارثہ اور انصار میں