کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 34
پاس حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور (بظاہر) مسلمان ہو گئے۔ (50) آج کی مہذب دنیا اسیرانِ جنگ سے بدترین اور وحشیانہ سلوک روا رکھتی ہے۔ محسن انسانیت نے انہیں بلند مرتبہ عطا فرمایا۔ ان سے حسن سلوک کی اعلیٰ مثالیں صحابہ نے قائم کیں۔ مدینہ میں تشریف آوری کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تمام جنگی قیدیوں کو پیش کیا گیا۔ ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بھی تھے، ان کے جسم پر لباس نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے قمیص تلاش کی لیکن کسی کی بھی قمیص ان کے ٹھیک نہ آئی سوائے عبداللہ بن ابی کی قمیص کے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی سے قمیص لے کر انہیں پہنا دی۔ (51) قیدیوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’یہ ہمارے چچا زاد ہیں اور ہمارے خاندان ہی کے افراد ہیں، میری رائے یہ ہے کہ آپ انہیں کچھ مال کے عوض چھوڑ دیں تاکہ اس مال سے کفار کا مقابلہ کرنے کے لئے سامان حرب اکٹھا کیا جائے اور شاید اللہ تعالیٰ بعد میں انہیں اسلام کی توفیق عطا فرما دے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ابن خطاب تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘ حضرت عمر نے کہا: ’’اللہ کی قسم میری وہ رائے نہیں جو ابوبکر صدیق کی ہے۔ میری رائے تو یہ ہے کہ آپ انہیں ہمارے سپرد کر دیں تاکہ ہم ان کے سر قلم کر دیں، عقیل کو علی بن ابی طالب کے حوالے کر دیں وہ انہیں قتل کر دیں اور مجھے میرا فلاں رشتہ دار دے دیں تاکہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ ان کا قتل بڑا ضروری ہے کیونکہ یہ کفر کے سردار اور اس کے مہرے ہیں‘‘ رسول رحمت کو